وقت کے ہر فرعون کو کہہ دو
مجھ پر حکم چلانے والے
کی ایں تو؟،توکون ہو کہہ دو
اب دور غلامی بیت چکا
میں، تم سے بازی جیت چکا
میرے لہجے کی کھنکار سنو
میرے اندر کے افکار سنو
اس وقت کی اب تکرار سنو
میرے وطن سے اُٹھنے والی اب للکار سنو سو بار سنو
وہ جو تیرے آگے جھکتے تھے
وہ جو سرنگوں تیرےدرپہ تھے تیرے ہر اشارہ ابرو پہ
وہ رکتےتھےوہ جو چلتے تھے
وہ قصۂ پارینہ ھوۓ
اب میرے وطن کے مرد جواں
تیری زنجیریں توڑ چکے ڈالرز سے ناطہ توڑ چکے
ھم روکھی سوکھی کھا لیں گے
جی لیں گے ھم خودداری سے
غیرت سے موت بھی سہہ لینگے
لیکن نا سر کو جھکائیں گے
ناہی اب دام میں آئیں گے
او، میر جعفر کے فرزندو وطن فروشی چھوڑ بھی دو
آخر ھم سب نے مرنا ہے
اور مالک کا سامنا کرنا ہے
قارون کی لت سے باز آؤ
ملت کو وطن کو مت بیچو
فانی دنیا کی خاطر
اب اپنا کفن تو مت بیچو
اس قوم نے اب یہ جان لیا
غداروں کو پہچان لیا
امت کا رہبر کون ہے اب
اس مرد جواں کو مان لیا
خان ہے وہ عمران ہے وہ
قوم کی آن اور شان ہے وہ
آواز بنا کمزوروں کی
مظلوم کا تیرکمان ہے وہ
وہ جان نچھاور کرتا ہے
قوم کی جس میں جان ہے وہ
کوئ اس کو ھرا، نا پائیگا
جانباز بڑا کپتان