Channel Avatar

Dr Hammad Physiotherapist. @UCbMmcvP-Vjo79G8BBx5yigg@youtube.com

1.1K subscribers - no pronouns :c

He Is a Doctor| A Clinical Physiotherapist| A Presenter| Dr


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 2 weeks ago

The Prophet Mohammad (ﷺ) walked past a woman who was weeping over a child she lost so The Prophet Mohammad (ﷺ)consoled her and advised her to be patient. She didn't realise that it was Sayyiduna Mohammad (ﷺ) speaking to her. Do you know what she replied, 'Go away, for you were not tested with a calamity similar to mine!' Did the Prophet say, 'Do you know who I am? Do you know who you're talking to? Do you know what I've been through? No. He left her and didn't say a word because he realised that she was too upset and distraught.

Who was Prophet Mohammad (ﷺ)? The one who lost his father and mother before he was 7 years old. The one who was made to flee Makkah and the one who was stoned. The one who buried his wife, children, cousins, went to war, and experience boycotts and hunger. Even though he lived the most difficult of lives and went through the hardest tests and pain — he always went out his way to console others and to lighten their burdens. What character! What perfection!

4 - 0

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 3 weeks ago

70,000 people from this ummah will enter Paradise without reckoning and judgement. O Allah, make everyone who reads this post from amongst them.
Ameen
Juma Mubarak 🩶

1 - 0

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 3 weeks ago

*بڑھاپا ٹانگوں سے اوپر کی طرف شروع ہوتا ہے۔اپنی ٹانگوں کو متحرک اور مضبوط رکھیں!*

▪️ جیسے جیسے ہم سالوں میں آگے بڑھتے ہیں، ہماری ٹانگیں ہمیشہ متحرک اور مضبوط رہیں۔جیسا کہ ہم مسلسل بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں، ہمیں اپنے بالوں کے سرمئی ہونے (یا) جلد کے جھرنے (یا) جھریوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
▪️ *لمبی عمر* کی علامات میں، جیسا کہ یو ایس میگزین *پریونشن* نے خلاصہ کیا ہے، ٹانگوں کے مضبوط پٹھے سب سے اہم اور ضروری کے طور پر درج ہیں۔
▪️اگر آپ دو ہفتے تک اپنی ٹانگیں نہیں ہلائیں گے تو آپ کی ٹانگوں کی طاقت 10 سال تک کم ہو جائے گی۔
ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بوڑھے اور جوان دونوں، دو ہفتوں کی غیرفعالیت کے دوران، ٹانگوں کے پٹھوں کی طاقت ایک تہائی تک کمزور ہو سکتی ہے، جو کہ 20-30 سال کی عمر کے برابر ہے۔
▪️جیسے جیسے ہماری ٹانگوں کے پٹھے کمزور ہوتے جائیں گے، اسے ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگے گا، چاہے ہم بعد میں بحالی اور ورزشیں کریں۔
▪️اس لیے چہل قدمی جیسی باقاعدہ ورزش بہت ضروری ہے۔
▪️جسم کا سارا وزن ٹانگوں پر ہوتا ہے۔
▪️ پاؤں ایک قسم کے ستون ہیں جو انسانی جسم کا سارا وزن اٹھاتے ہیں۔
▪️دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کی 50% ہڈیاں اور 50% پٹھے دونوں ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔
▪️انسانی جسم کے سب سے بڑے اور مضبوط جوڑ اور ہڈیاں بھی ٹانگوں میں ہوتی ہیں۔
▪️مضبوط ہڈیاں، مضبوط پٹھے اور لچکدار جوڑ *آئرن ٹرائی اینگل* بناتے ہیں جو انسانی جسم کا سب سے اہم بوجھ اٹھاتا ہے۔
▪️ انسان کی زندگی میں 70% سرگرمیاں اور توانائی کو جلانا دونوں پاؤں سے ہوتا ہے۔
▪️کیا آپ یہ جانتے ہیں؟ جب ایک شخص جوان ہوتا ہے تو اس کی رانوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ 800 کلو وزنی گاڑی اٹھا سکے!
▪️ ٹانگ جسم کی حرکت کا مرکز ہے۔
▪️دونوں ٹانگوں میں انسانی جسم کے 50% اعصاب، 50% خون کی شریانیں اور 50% خون ان سے بہتا ہے۔
▪️یہ سب سے بڑا گردشی نیٹ ورک ہے جو جسم کو جوڑتا ہے۔
▪️جب ٹانگیں صحت مند ہوتی ہیں تو خون کا بہاؤ آسانی سے ہوتا ہے اس لیے جن لوگوں کی ٹانگوں کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ان کا دل ضرور مضبوط ہوتا ہے۔
▪️ بڑھاپا پاؤں سے اوپر کی طرف شروع ہوتا ہے۔
▪️جیسے جیسے کوئی شخص بڑا ہوتا جاتا ہے، دماغ اور ٹانگوں کے درمیان ہدایات کی ترسیل کی درستگی اور رفتار کم ہوتی جاتی ہے، اس کے برعکس جب کوئی شخص جوان ہوتا ہے۔
▪️اس کے علاوہ، نام نہاد بون فرٹیلائزرکیلشیم جلد یا بادیر وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جائے گا، جس سے بوڑھوں کو ہڈیوں کے ٹوٹنے کا زیادہ خطرہ ہو گا۔
▪️بزرگوں میں ہڈیوں کا ٹوٹنا آسانی سے پیچیدگیوں کا ایک سلسلہ شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر مہلک بیماریاں جیسے دماغی تھرومبوسس۔
▪️کیا آپ جانتے ہیں کہ عام طور پر 15% عمر رسیدہ مریض، ران کی ہڈی کے فریکچر کے ایک سال کے اندر مر جائیں گے؟
▪️ ٹانگوں کی ورزش، 60 سال کی عمر کے بعد بھی کبھی دیر نہیں لگتی۔
▪️اگرچہ ہمارے پاؤں/ٹانگیں وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ بوڑھے ہوں گے، لیکن ہمارے پیروں/ٹانگوں کی ورزش کرنا زندگی بھر کا کام ہے۔
▪️صرف ٹانگوں کو مضبوط کرنے سے ہی کوئی شخص مزید بڑھاپے کو روک یا کم کر سکتا ہے۔

▪️براہ کرم روزانہ کم از کم 30-40 منٹ چہل قدمی کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کی ٹانگوں کو کافی ورزش مل رہی ہے اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ آپ کے ٹانگوں کے پٹھے صحت مند رہیں۔
ڈاکٹر حماد یاسر ۔
فزیو تھراپسٹ ۔

0 - 2

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 3 weeks ago

الحمدللہ میں بھی انسان ہوں فاؤنڈیشن کی جانب سے چک 85/P نزد خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان میں فری میڈیکل اینڈ فیزیو تھراپی کیمپ کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں کالا،پیلا یرقان شوگر اور مختلف بیماریوں کے فری ٹیسٹ کیے گئے اور دانتوں کے امراض کا مکمل یونٹ موجود تھا جسمانی دردوں کے ساتھ جو مریض تھے ان کی مکمل فزیو تھیراپی کی گئی ۔ مریضوں کو تمام قسم کی ادویات فری فراہم کی گئی ۔
ہمیشہ کی طرح ہماری فاؤنڈیشن انسانی خدمت میں آگے ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔
25/08/2024

1 - 0

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 4 weeks ago

جوہری آبدوز کے اندر زندگی کیسی ہوتی ہے؟
۔•۔
اس وقت جہاں پر دنیا کے ساڑھے چھ لاکھ لوگ زمین سے ہزاروں فٹ بلند جہاز میں بیٹھے اڑ رہے ہیں، وہاں پر ہزاروں لوگ سمندر کی سطح سے نیچے آبدوز پر موجود ہیں۔ نیوکلئیر آبدوز دنیا کے مہنگے ترین ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ ان کی بڑی طاقت ان کی خاموشی ہے۔ اپنی پوری زندگی کا بڑا حصہ یہ پانی کے نیچے گزار دیتی ہیں۔ اس طاقتور ہتھیار میں سب سے نازک چیز اس کا عملہ ہے تو چلیں پھر دھات کے اس ڈبے میں رہنے والوں کی زندگی کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ ہر کوئی آبدوز کے عملے کے لئے کوالیفائی نہیں کر سکتا۔ بحریہ میں اس کے لئے سخت شرائط ہوتی ہیں جن میں سے ایک نفسیات کے امتحان بھی ہیں۔ لمبی مدت تک ایک دھات کے ڈبے میں زندگی گزارنا آسان نہیں۔ کسی کی ایک غلطی لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال سکتی ہے اور مضبوط اعصاب ضروری ہیں۔ ایک وقت میں اس کو ایک ماہ تک کے لئے پلان کیا جاتا ہے۔ ایک وقت میں زیرِسمندر اور بغیر سطح پر آئے سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ (جو پبلک ہے)، وہ گیارہ ماہ کا ہے جو ایک امریکی آبدوز کا ہے۔ (امریکہ کی ایک وقت میں ساٹھ سے ستر آبدوزیں عالمی پانیوں میں ہوتی ہیں)۔ لمبا عرصہ بغیر سورج کے ایک چھوٹی سی جگہ میں بند رہنا اعصاب پر اثر ڈالتا ہے۔
ایک نیوکلئیر آبدوز کتنا عرصہ پانی کے نیچے رہ سکتی ہے؟ اس کا انحصار صرف اس پر ہے کہ اس میں خوراک کتنی ہے۔ اس کے ری ایکٹرز میں ایک ہی بار ایندھن ڈالا جاتا ہے جو اس آبدوز کی پوری زندگی کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ہوا اور پانی کو ری جنریٹ کیا جاتا ہے، اس لئے کھانا (یعنی اس پر بسنے والے عملے کے لئے ایندھن) وہ واحد چیز ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ کتنا زیادہ وقت ایک غوطے میں لگا سکتی ہے۔
آبدوز کے عملے کا وقت آٹھ گھنٹے کی تین شفٹوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی، آٹھ گھنٹے کا پرائیویٹ وقت (جس میں وہ کھیل سکے، پڑھ سکے، ورزش کر سکے) اور آٹھ گھنٹے کی نیند۔ رہنے کے لئے جگہ بہت کم ہوتی ہے اور چھوٹے تابوت نما بستر جس پر ایک پتلا سا پردہ الگ کرتا ہے۔ پرائیویسی کا کوئی خاص تصور نہیں۔ ایک دن میں ہر وقت کسی نہ کسی کے سونے کا وقت ہوتا ہے، اس لئے اونچی آواز، شور مچانا یا دروازے زور سے بند کرنا منع ہوتا ہے۔ عام طور پر عملے کے افراد کی تعداد یہاں کے کل بستروں سے زیادہ ہوتی ہے، اس لئے بستر شئیر کئے جاتے ہیں۔ ایک شفٹ میں ایک کے لئے، وہی اگلی شفٹ میں دوسرے کے لئے۔
جگہ کا مسئلہ صرف بستروں کا نہیں، شاور اور ٹوائلٹ کا بھی ہے۔ سو سے زیادہ کے عملے کے لئے دو شاور ہوتے ہیں اور تین منٹ سے زیادہ نہانا منع ہوتا ہے۔ (آبدوز نہانے کا پانی سمندری پانی سے فلٹر کرتی ہے)۔ کپڑے دھونے کی صرف ایک جگہ۔ (صاف کپڑے یہاں کی لگژری ہیں)۔ ٹوائلٹ کا استعمال بھی دھیان سے کیا جاتا ہے۔ فضلہ ایک خاص ٹینک میں جمع ہوتا ہے جسے مناسب وقت پر آبدوز سے خارج کرنا ہوتا ہے۔ عملے کی تفریخ کے لئے تاش، بورڈ گیمز ویڈیو گیمز وغیرہ موجود ہوتی ہیں جن سے ایک دوسرے سے اچھی دوستی بھی ہو سکے۔
سب سے زیادہ جگہ آبدوز کا انجن لیتا ہے (آبدوز کا نصف حصہ یہ ہے)۔ دوسرے نمبر پر کچن۔ یہاں پر اچھے اور طرح طرح کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔ ہفتوں سمندر کے نیچے سٹریس والی زندگی گزارنے والے عملے کو خوش رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے۔ شروع میں تازہ کھانا ملتا ہے، اس کے بعد ٹین کے ڈبوں میں پریزرو کیا ہوا۔ آبدوز پر انٹرنیٹ کا کوئی کنکشن نہیں اور باہری دنیا سے رابطہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب آبدوز سطح پر آئے اور ایسا کم کم ہوتا ہے۔ رابطہ کرنے والی آبدوز کا پتہ لگانا آسان ہے اور خاموشی اس کے لئے اہم، اس لئے یہ رابطہ کم ہوتا ہے۔ آبدوز کا عملہ اپنی فیملی یا دوستوں سے ہفتوں یا مہینوں کسی قسم کا رابطہ نہیں کرتا۔ اس عملے کی آپس کی دوستیاں گہری اور تمام عمر رہنے والی بن جاتی ہیں۔ کچھ ان لکھے اصول یہاں پر چلتے ہیں۔ جیسا کہ کسی بھی متنازعہ معاملے پر کوئی بات نہیں کرتا۔ سیاست جیسے موضوع کبھی بھی زیرِ بحث نہیں آتے۔ زندگی گزارنے کی اپنی روایات اور طریقے ہیں۔ ان کو فوجی ڈسپلن کی کئی چیزیں بھی معاف ہوتی ہیں۔ جیسا کہ حجامت یا روزانہ شیو کے بارے میں۔ (جب یہ ٹرپ سے واپس آ جائیں تو پھر یہ دوبارہ لاگو ہو جاتی ہیں)۔
آبدوز کی زندگی ہر ایک کے لئے نہیں۔ بغیر تازہ ہوا اور دھوپ کے ہفتوں بند جگہ پر ہزاروں لوگ اس وقت دھات کے اس کیپسول میں بند دنیا کے ہر سمندر کے نیچے تیر رہے ہیں۔
یہ تحریر سر وہارا امباکر کی ہے ۔۔۔۔۔

0 - 0

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 4 weeks ago

کموڈو ڈریگن (komodo dragon)

ہمارے گھروں میں موجود عام چھپکلیوں کی نسبت دس فٹ لمبی زمین پر سب سے بڑی اور بھاری چھپکلی کوموڈو ڈریگن ہے، اس کی لمبائی تقریبا دس فٹ یعنی تین میٹر، وزن چالیس سے سو ہو سکتا ہے اوسطاً ستر کلوگرام ہوتا ہے، رینگنے والے جانوروں میں یہ بڑی چھپکلیاں گوشت خور ہوتی ہیں جو کہ اوسطاً تیس سال تک زندہ رہتی ہیں،سائنس دانوں نے ان کا تقریبا سو سال پہلے تک مطالعہ نہیں کیا تھا حالانکہ یہ خوفناک رینگنے والا جانور لاکھوں سالوں سے کرہ ارض پر موجود ہے،جنگلی کوموڈو ڈریگن صرف انڈونیشیا کے پانچ جزیروں پر پائی جاتی ہیں ان میں لیزر سنڈا (lesser sunda) جزیرہ نمایاں ہے،
مادہ کموڈو ڈریگن انڈے دیتی ہیں جن کی تعداد اکثر تیس کے آس پاس ہوتی ہے ان کی حفاظت وہ مہینوں کرتی ہیں، بچے پیلے اور کالے رنگ کے بینڈوں کے ساتھ سبز رنگ کے ہوتے ہیں لیکن عمر کے ساتھ ساتھ وہ بھوری رنگ کے سرخی مائل ہو جاتے ہیں۔ نوجوان ڈریگن شکاریوں سے بچنے کے لۓ آٹھ ماہ کی عمر تک گھنے جنگلات میں رہتے ہیں،

امریکی ماہرین نے ’’کموڈو ڈریگن‘‘ کے خون میں ایسے 48 پروٹین دریافت کرلیے ہیں جو انتہائی سخت جان قسم کے بیکٹیریا کو ہلاک کرسکتے ہیں۔سائنسدان پہلے سے جانتے تھے کہ جنگلی کموڈو ڈریگن کے منہ میں بھی تقریباً 50 اقسام کے جراثیم موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی دوسرے جانور کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن کموڈو ڈریگن کو ان سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، ورجینیا میں جارج میسن یونیورسٹی کے حیاتی کیمیادانوں (بایوکیمسٹس) کی ایک ٹیم نے مختلف کموڈو ڈریگنز کے خون کے نمونے حاصل کیے اور تجربہ گاہ میں باریک بینی سے جائزہ لیا کہ ان میں ایسے کونسے مرکبات ہیں جو بیکٹیریا کو ہلاک کرنے کی خصوصی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس تفصیلی تجزیئے کے دوران انہوں نے کموڈو ڈریگن کے خون میں ایسے 48 پروٹین دریافت کیے جو جراثیم کش خصوصیات رکھتے تھے۔ پیٹری ڈش میں رکھے گئے تقریباً ہر قسم کے جرثوموں کو ان پروٹینز نے بڑی آسانی سے ہلاک کردیا جب کہ ان میں وہ بیکٹیریا بھی شامل تھے جن پر کوئی اینٹی بایوٹک دوا بھی اثر نہیں کرتی، اگر ان تحقیقات کو عملی جامہ پہنا دیا گیا تو مستقبل میں خطرناک ترین بیماریوں کا علاج ممکن ہو جائے گا،

کموڈو ڈریگن تقریبا ہر جاندار کو کھاجاتی ہیں جیسے کہ ہرن، بھینس، خنزیر، مردہ جانور حتیٰ کہ چھوٹے کوموڈو ڈریگن اور کبھی کبھار انسانوں پر بھی حملہ آور ہو جاتی ہیں، یہ جھاڑیوں میں چھپ کے اپنے شکار کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں موقع ملتے ہی اپنی طاقتور ٹانگوں اور تیز پنجوں سے اپنے شکار پر اچھل پڑتی ہیں ہیں پھر اپنے شاتر دانت اس کے اندر گاڑ دیتی ہیں،
اس کے تیز نوکیلے دانتوں میں زھر ہوتا ہے اور شکار کموڈو ڈریگن کی زھریلی کاٹ کی وجہ سے کچھ دن میں کمزور ہوجاتا ہے اس لیے اس کی پکڑ سے فرار بھی زیادہ دیر شکار کو محفوظ نہیں رکھ سکتا مرنا طے ہے، سب سے بڑا ظلم یہ شکار کو زندہ کھا کر کرتی ہیں ظالمانہ طریقے سے شکار کو زندہ کھانے میں یہ جنگلی کتوں، لگڑ بھگڑ اور مگرمچھ کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ ان کا شکار آخر وقت تک زندہ رہتا ہے،یہ بہت چالاکی اور صبر کے ساتھ شکار کا اس وقت تک پیچھا کرتی ہیں جب تک کہ وہ زہر کے اثر سے نیم بے ہوش نہیں ہو جاتاجب شکار اس کے زہر سے بے بس مجبور لاچار حرکت کرنے سے قاصر ہوتا ہے تو یہ اسے پیٹ کے پاس سے زندہ کھانا شروع کر دیتی ہیں یہاں تک کہ اس کے جسم کا اسی فیصد حصہ کھا جاتی ہیں جبکہ شکار آخر تک تقریباً زندہ ہی رہتا ہے،

کموڈو ڈریگن اور ہمارے ملک کے طاقتور حلقوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ہر پانچ سال کے لئے قوم کی مرضی کے خلاف اس کے ووٹ پہ ڈاکا ڈال کر زبردستی کسی ٹولے کو زہر کی طرح مسلط کر کے قوم کو لاچار بے بس مجبور کر کے آہستہ آہستہ زندہ درگور کر رہے ہوتے ہیں.

0 - 0

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 4 weeks ago

وہ کیسی عورتیں تھیں
جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولھا جلاتی تھیں
جو سِل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں
صبح سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھک کر ملنے آتی تھیں
جو پنکھے ہاتھ کےجھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں
جو دروازے پہ رک کردیر تک رسمیں نبھاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں
بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں
اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

جو اپنی بیٹیوں کو سویٹر بننا سکھاتی تھیں
سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں
بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصے بناتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

جوکلمے کاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلا تی تھیں
اور اپنی جا نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلا تی تھیں
پڑوسن مانگ لے کچھ باخوشی دیتی دلاتی تھیں
جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

میں جب گھر اپنے جاتی ہوں تو فرصت کے زمانوں میں
انھیں ہی ڈھونڈتی پھرتی ہوں گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں جز دان میں تسبیح دانوں میں
کسی برآمدے کے طاق پر باورچی خانوں میں

مگر اپنا زمانہ ساتھ لے کر کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ.

0 - 0

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 4 weeks ago

صحرائے نمیب، جو جنوب مغرب میں افریقہ کے بحر اوقیانوس کے ساحل پر پایا جاتا ہے، زمین کے خشک ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ تین ممالک میں تقریباً 81,000 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر محیط ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تقریباً 55 ملین سال پرانا ہے، جو اسے دنیا کا قدیم ترین صحرا بناتا ہے۔ گرمیوں میں، درجہ حرارت 45 ڈگری سیلسیس تک بڑھ سکتا ہے، جب کہ رات کے وقت، یہ انجماد سے نیچے گر سکتا ہے۔ اس کے سخت حالات کے باوجود، کچھ جانور جیسے شتر مرغ، ہرن، چوہا اور پرندے یہاں رہنے کے لیے ڈھل گئے ہیں۔ صحرا کی ایک دلچسپ خصوصیت پریوں کے دائرے، گھاس سے گھرے ہوئے بنجر پیچ ہیں، جو برسوں سے سائنسدانوں کو حیران کیے ہوئے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حلقے ایک جیومورفک رجحان سے تشکیل پاتے ہیں، حالانکہ کچھ قیاس کرتے ہیں کہ یہ غیر ملکیوں کا کام ہو سکتے ہیں۔ صحرا کا منفرد ماحولیاتی نظام پانی کے لیے دھند پر انحصار کرتا ہے، جس سے رینگنے والے جانوروں اور ستنداریوں کو پانی کی کم سے کم استعمال کے ساتھ زندہ رہنے میں مدد ملتی ہے۔ Sossusvlei کے علاقے میں ریت کے ٹیلے، جنہیں ستارے کے ٹیلوں کے نام سے جانا جاتا ہے، ہوا کے نمونوں کی وجہ سے ایک مخصوص ستارے جیسی شکل رکھتے ہیں۔ ریت کا سرخی مائل رنگ آئرن آکسائیڈ سے آتا ہے، جس کے رنگ میں تغیرات گلابی مائل سے لے کر سمندر کے قریب سفید تک ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار، مون سون کے شدید موسموں میں، دریائے تساوچاب بہتا ہے، جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اس نایاب نظارے کا مشاہدہ کرنے کے لیے راغب کرتا ہے

0 - 0

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 4 weeks ago

گیدڑ سنگھی.
عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں. کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں. کچھ لوگ اسے سر ایک بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں. کچھ جوگی اس کو ایک ایسے گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے. جس کو تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں.

اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جس کے پاس ہو اس کی قسمت بدل جائے گی. اس کو ہر طرح سے مالی مدد حاصل ہوگی. زیورات یا نقدی کے سیف میں گیدڑ سنگھی رکھی جائے تو وہ مزید بڑھیں گے. دولت اور کاروبار میں ترقی ہوگی، گمشدہ مال مل جایا کرے گا. غیب سے ہر طرح کی مدد اور خوشحالی حاصل ہوگی، دولت آنے کے ہر ذریعے میں کامیابی ہوگی. لاٹری، بانڈ، جوا، سٹہ، کاروبار میں کامیابی ہوگی.

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ گیدڑ سنگھی کا تعلق ہندوستان سے ہے اور اسے ہندو تانترں نے دریافت یا ایجاد کیا لیکن ہمیں ہندو مذہب یا تاریخ کی کسی کتاب میں گیدڑ سنگھی کا ذکر نہیں ملتا. چونکہ اسے سیندور میں رکھا جاتا ہے اس لیے اس کا تعلق ہندؤوں سے جوڑ دیا گیا.

درحقیقت گیدڑ سنگھی کا ذکر ہمیں قدیم مصر میں ملتا ہے. قدیم مصر میں گیدڑ کو ایک انتہائی متبرک جانور سمجھا جاتا تھا. ان کے ایک دیوتا کا نام انوبس Anubis تھا جس کا سر گیدڑ جیسا اور باقی جسم انسان کا تھا. آپ نے اکثر قدیم مصر کے اہرام اور دوسرے قدیم عمارات کی دیواروں پر منقش شدہ تحاریر اور شبیہات میں اس دیوتا کی تصویر دیکھی ہوگی. اسی طرح قدیم مصریوں میں بلی کو بھی انتہائی مقدس جانور خیال کیا جاتا تھا.

مصری لوگ گیدڑ سنگھی نکال کر حنوط کر لیتے تھے اور پھر ایک خاص مرتبان میں رکھ کر اپنے خزانے میں رکھتے تھے. اسی طرح یہ رسم چلتی ہوئی ہندوستان اور تمام دنیا تک بھی پہنچی. زمانہ قدیم سے لوگ گیدڑ سنگھیاں حنوط کر لیتے تھے. راجہ مہاراجہ اور بادشاہ اسے اپنے خزانوں کے درمیان رکھتے تھے.

کہا جاتا ہے کہ جب گیدڑ سو سال کا ہو جاتا ہے تو اس کے سر پر سینگ اگ آتا ہے یا یہ کہ یہ سینگ صرف گیدڑوں کے سردار گیدڑ کے سر میں پایا جاتا ہے.

لوگ اس چیز کو بہت منتیں کر کے جوگیوں اور ملنگوں سے خریدتے ہیں اور خریدتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ زندہ حالت میں ہو اور پھر بڑے پیار اور عزت سےاسے سیندور اور خوشبووں والی ایک چھوٹی سی ڈبی میں رکھتے ہیں. سیندور وہی سرخ رنگ کا پوڈر نما سفوف ہے جیسے ہندو پٙتی اپنی پتنی کی مانگ میں لگاتا ہے. سیندور ایک کیمیکل ہوتا ہے جو اسے کیڑے لگنے اور گلنے سڑنے سے محفوظ رکھتا ہے.

لوگ اس گیدڑ سنگھی کا بہت خیال رکھتے ہیں اور پاک صاف ہو کر اس کے نزدیک جاتے اور اس کو ہاتھ میں پکڑتے ہیں کیونکہ جوگی صاحب نے انہیں بتایا ہوتا ہے کہ اگر ناپاک حالت میں اس کے قریب جاؤ گے تو یہ مر جائے گی یا اس وجہ سے آپ کا بہت بڑا نقصان ہو جاۓ گا.

اصل میں گیدڑ سنگھی واقعی گیدڑ کے سر (کھوپڑی) سے حاصل ہوتی ہے. یہ بلکل جلد کے نیچے موجود ہوتی ہے اور اسے اس کے سر سے کاٹ کر علیحدہ کر لیا جاتا ہے. اسی لئے اس چیز کے گرد بال بھی موجود ہوتے ہیں. گیدڑ سنگھی کینسر زدہ (tumer) سیلز ہیں جو کہ گیدڑوں کے سر میں ایک بڑے دانے کی طرح ابھر آتا ہے جس میں تھوڑی سی سختی بھی آجاتی ہے.

گیدڑ کے سر سے الگ ہونے کے باوجود اس کے بڑھنے کی 2 وجوہات ہو سکتی ہیں:

1. پہلی وجہ یہ کہ کینسر والے سیلز اس سنگھی میں موجود ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کو کھا کر بڑھتے رہتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ گیدڑ سنگھی بڑھ رہی ہے.

2. اس کے بڑھنے کی دوسری وجہ آکسیجن کی غیر موجودگی میں بیکٹیریا کی گروتھ کا جاری رہنا یا ان کی تعداد کا بڑھتے رہنا بھی ہو سکتا ہے.
یہ سب کینسر زدہ سیلز کو سندور میں حنوط کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے.

نوٹ: اگر کسی کے پاس اس کے سائز کے بڑھنے کی وجہ ہے تو کمنٹ میں ضرور بتائیے گا.

کچھ بھیک مانگنے والے جوگی اور سپیرے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں. سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر گیدڑ سنگھی فائدہ مند ہوتی تو وہ خود خوشحال ہوتے اور دربدر بھیک نہ مانگ رہے ہوتے

0 - 0

Dr Hammad Physiotherapist.
Posted 2 months ago

نوکری کے دوران بننے والے تعلقات
ایک کسان نے کھیتوں میں کام کرتے بٹیرے پکڑ لیے، اس نے سوچا خود ان بٹیروں کا کیا کرنا ہے کیوں نہ یہ سب سے بڑے اور با اثر افسر کو تحفے میں دئے جائیں۔ اب بھلا پٹواری سے بڑا افسر کون ہو سکتا تھا اور پھر کسان کو پٹواری سے کام بھی تھا تو وہ چل پڑا کہ چل کے پٹواری صاحب کو خوش کرتے ہیں۔۔
پٹواری کے گھر کے باہر پہنچ کر سادہ لوح دیہاتی کسان نے باہر سے ہی آواز دی
کسان: پٹواری صاحب۔۔!!
پٹواری: ہاں اوئے رحمیاں ، کی آ
کسان: جی چودھری جی بٹیرے کھا لیندے او ؟
( اسی دوران ایک ستم ظریف جو پاس سے گزر رہا تھا، اس نے آہستہ سے بتا دیا کہ پٹواری کا تبادلہ ہو گیا ہے)
پٹواری: آہو کھا لینے آں
کسان: چنگا فیر پھڑیا کرو تے کھایا کرو

0 - 0