Channel Avatar

Shaborozurdunews @UCbM7P0cD42t3EXKnnP3C93w@youtube.com

743 subscribers - no pronouns :c

شب و روز اردو ٹی وی کام کا مقصد صحافت کے ذریعہ سماجی بیداری


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Shaborozurdunews
Posted 1 week ago

مہاراشٹر میں کس کی سرکار بننے جا رہی ہے

1 - 0

Shaborozurdunews
Posted 3 months ago

ہندوستانی شہری کیسے آزاد ہیں؟
اداریہ ممبئی اردو نیوز
یہ ایک سوال ہے جو کئی دہائیوں کی جدوجہد، قربانیوں، اور خوابوں کے بعد بھی زندہ ہے۔ ہندوستان نے 15 اگست 1947 کو انگریزوں کے ظلم و استبداد سے آزادی حاصل کی، لیکن کیا ہندوستانی واقعی آزاد ہیں؟ یہ سوال آج بھی انصاف پسندوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے ، خاص طور پر جب وہ مسلمانوں کے ساتھ ملک میں روا رکھے گئے سلوک پر غور کرتے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو آج کے ہندوستان کے معاشرتی، سیاسی، اور قانونی نظام پر ایک گہرا اثر ڈالتا ہے۔
آزادی کا مفہوم صرف انگریزوں سے آزادی تک محدود نہیں تھا۔ یہ ایک وسیع تصور ہے جس میں سماجی، سیاسی، معاشی، اور مذہبی آزادی شامل ہے۔ آزادی کا اصل مقصد ہر شہری کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے، اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اور معاشرتی انصاف کے حصول کا حق فراہم کرنا تھا۔ لیکن آج، جب انصاف پسند مسلمانوں کی حالت زار پر غور کرتے ہیں ، تو انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مقاصد ابھی تک پوری طرح حاصل نہیں ہوئے ہیں۔آزادی کے بعد ہندوستان نے جمہوریت کا راستہ اختیار کیا، جس کا مقصد ہر شہری کے لیے مساوات، انصاف، اور آزادی کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن یہ وعدے مسلمانوں کے لیے کس حد تک پورے ہوئے ہیں؟ کیا مسلمانوں کو وہی حقوق ملے ہیں جو ہندوستان کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔آزادی کے فوراً بعد سے ہی مسلمانوں کے خلاف منظم طریقے سے تشدد اور امتیازی سلوک کیا گیا۔ فرقہ وارانہ فسادات، جن میں 2002 کے گجرات فسادات، 1984 کے میرٹھ فسادات، 1993 کے ممبئی فسادات، 2013 کے مظفر نگر فسادات، اور 2020 کے دہلی فسادات شامل ہیں، نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان فسادات میں نہ صرف مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ ان کی جائیدادیں اور کاروبار بھی تباہ کیے گئے۔ بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کیاگیا جو آج تک جمہوری نظام میں آزادی کے منتظر ہیں۔ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت زار کتنی نازک ہے۔خصوصاً پچھلے دس بارہ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا ہے، وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ گائے کے نام پر لنچنگ، جو کہ ایک وحشیانہ عمل ہے، مسلمانوں کے خلاف ایک معمول بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ، جو مسلمان اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، انہیں جھوٹے الزامات میں ملوث کر کے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو مٹانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں، جس کا ثبوت شریعت میں مداخلت اور وقف بورڈ کی جائیدادوں پر قبضے کی کوششوں سے ملتا ہے۔جمہوریت کے تحت حاصل کردہ حقوق، جیسے تعلیم، معاشی مواقع، اور اظہارِ رائے کی آزادی، بظاہر تو مسلمانوں کے لیے موجود ہیں، لیکن عملی طور پر ان حقوق کا استعمال کرنے میں مسلمانوں کو شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کو ایک غیر یقینی اور خوفزدہ ماحول میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے، جہاں ان کی مذہبی شناخت ہمیشہ خطرے میں نظر آتی ہے۔ عدالتوں میں انصاف کے حصول کا عمل بھی اکثر مسلمانوں کے لیے پیچیدہ اور متعصبانہ ہوتا ہے۔مسلمانوں کے لیے قانونی نظام بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔ کئی مرتبہ قانونی نظام کا استعمال مسلمانوں کو دبانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کے رویے میں تعصب کی شکایات عام ہیں، اور مسلمانوں کو اکثر بلا وجہ تفتیش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر کارروائیاں اور ان کے مذہبی مراکز کو نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے۔لہذا، اگرچہ مسلمان ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں، مگر مسلمانوں کی آزادی کی حقیقت مختلف ہے۔ مسلمانوں کو آج بھی انصاف، تحفظ، اور مساوات کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ وہ خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں ان کے مذہب، شناخت، اور ثقافت پر حملے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ سوال " ہندوستانی شہری کیسے آزاد ہیں؟" آج بھی زندہ ہے اور اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک کہ ملک کے ہر شہری کو حقیقی معنوں میں آزادی اور انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں کی آزادی کا مسئلہ صرف ایک کمیونٹی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ پورے ہندوستان کے جمہوری نظام کا امتحان ہے۔ اگر ہندوستان کو واقعی ایک آزاد اور جمہوری ملک بننا ہے، تو اسے ہر شہری کے حقوق اور آزادی کا احترام کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کے خلاف جاری تشدد اور امتیازی سلوک کو روکنا ہوگا، اور انہیں وہ تمام حقوق فراہم کرنا ہوں گے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ آزادی کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک کہ ملک کے ہر شہری کو مساوات، انصاف، اور آزادی فراہم نہیں کی جاتی۔ مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانا اور ان کی زندگی کو محفوظ بنانا ہمارے جمہوری نظام کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اس وقت تک " ہندوستانی شہری کیسے آزاد ہیں؟" کا سوال زندہ رہے گا جب تک کہ ہر شہری کو حقیقی معنوں میں آزادی کا احساس نہ ہو۔

1 - 0

Shaborozurdunews
Posted 4 months ago

ایک طلاق یافتہ اکیلی ماں نے لکھا:

میں آپ کو یہ بات سمجھانے کے لیے لکھ رہی ہوں کہ اپنے شریک حیات کی خوبیوں کی قدر کرنا ضروری ہے، چاہے ان میں خامیاں ہوں۔

میری عمر 32 سال ہے۔

میرے سابق شوہر اور میں نے 6 سال تک ڈیٹ کی۔

ہم بہترین دوست تھے۔

میں نے انتظار کیا یہاں تک کہ اس نے کالج مکمل کر لیا اور کام شروع کر دیا۔

پھر میرے خاندان اور اس کے خاندان نے ملاقات کی۔

ہماری شادی ہوئی اور ہمارا ایک بیٹا ہوا۔ [اب 7 سال کا ہے]۔

میرا شوہر کبھی کبھار غصے میں آ جاتا تھا لیکن ہمارے مسائل تب شروع ہوئے جب میں نے اسے یہ محسوس کرانا چاہا کہ وہ مجھے کنٹرول نہیں کر سکتا۔

جب بھی ہم جھگڑتے، میں اپنا سامان باندھ کر اپنے خاندان کے پاس چلی جاتی اور انہیں صورتحال سمجھاتی۔

میری بہنیں میرے شوہر کو فون کرتیں اور اس پر چیختیں۔

اگر وہ مجھے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا تو میں ہمیشہ اسے کہتی کہ اگر وہ چاہے تو مجھے طلاق دے سکتا ہے۔

میں کبھی طلاق نہیں چاہتی تھی۔

مجھے صرف اپنی عزت کا خیال تھا اور میں کبھی بھی اس کی نظروں میں ایک کمزور عورت نہیں بننا چاہتی تھی۔

ایک دن میں نے اسے اتنا تنگ کیا کہ پہلی بار اس نے مجھے مارا اور گھر سے باہر نکال دیا۔

میں اپنے خاندان کے پاس چلی گئی، میرے خاندان نے اسے پولیس میں رپورٹ کر دیا، ہر بار ایسا لگتا تھا جیسے میں ہی مظلوم ہوں!

لیکن حقیقت میں، میں اپنے شوہر کو جذباتی طور پر تکلیف پہنچاتی تھی۔

اسے گرفتار کر لیا گیا اور حراست میں رکھا گیا۔

اس کے خاندان نے مجھ سے کیس واپس لینے کو کہا۔

مجھے محسوس ہوا کہ میں غلط کر رہی ہوں۔

میرا شوہر کبھی بھی پرتشدد انسان نہیں تھا، اس نے جو کیا وہ اس لیے کیا کیونکہ میں نے اسے مجبور کیا اور اس نے کھلے دل سے معافی مانگی۔

میں نے کیس واپس لے لیا، اور ہم دوبارہ مل گئے۔

تین ماہ بعد، ایک چھوٹے مسئلے پر میں نے پھر سے اپنا سامان باندھ لیا اور وہ اکیلا رہ گیا۔

دو دن بعد، مجھے کال آئی کہ وہ ہسپتال میں ہے۔

میرے خاندان نے مجھے کہا کہ وہاں نہ جاؤں کیونکہ ایسا لگے گا جیسے میں اسے منانے جا رہی ہوں اور میری بہنیں مانتی تھیں کہ وہ بیماری کا ڈرامہ کر رہا ہے۔

اس دوران، لوگ مجھے مظلوم سمجھتے رہے جیسے میں ہی ظلم کا شکار ہوں۔

وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں رہا، جب وہ واپس آیا، مجھے صرف طلاق کا نوٹس ملا۔

میں طلاق کو رد کرنا چاہتی تھی، لیکن میرے غرور کی وجہ سے، میں چاہتی تھی کہ وہ اپنا فیصلہ بدلے اور مجھ سے معافی مانگے۔

میں نے اسے فون کیا اور کہا کہ اسے طلاق مل جائے گی کیونکہ میں جہنم میں جی رہی تھی۔

جب ہم عدالت گئے، میں چاہتی تھی کہ وہ قیمت چکائے، اس لیے میں نے عدالت سے کہا کہ اس کی جائیداد تقسیم کی جائے۔

میری حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے کھلے عام عدالت کو بتایا کہ جو کچھ بھی ہم نے اکٹھا حاصل کیا ہے وہ مجھے دیا جائے، اسے صرف طلاق چاہیے۔

ہم جولائی 2009 میں طلاق یافتہ ہو گئے۔

اب، میرا شوہر شادی شدہ ہے، جبکہ میں یہاں برباد ہو رہی ہوں!

میرے خاندان والے میرے بارے میں چغلی کرتے ہیں۔

میں اپنی بقا کے لیے اپنے بیٹے کے لیے جو میرے سابق شوہر دیتا ہے، اس پر انحصار کرتی ہوں۔

مجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنی شادی برباد کی۔

میں یہاں تمام بیویوں کو بتا رہی ہوں کہ انہیں مشورہ لیتے وقت احتیاط کرنی چاہیے۔

دھوکہ نہ کھائیں، اپنے خاندان کی مداخلت کو اپنی شادی میں نہ آنے دیں میرے عزیز قاری۔

یہاں تک کہ میری چھوٹی بہنیں بھی مجھ سے زیادہ عزت پاتی ہیں۔

جن لوگوں نے مجھے طلاق لینے کی ترغیب دی، وہ ہمیشہ میرا مذاق اڑاتے ہیں اور میرے بارے میں بری باتیں کرتے ہیں۔

براہ کرم خواتین، اپنی شادی میں چوکسی سے کام لیں۔

سوچا کہ اپنی کہانی شیئر کروں تاکہ آپ کی شادی بچ سکے۔

غرور میں کوئی فائدہ نہیں۔

کبھی کبھی یہ مرد کا قصور نہیں ہوتا،
یہ آپ کا غرور ہوتا ہے، اور وہ لوگ جو آپ کو مشورہ دیتے ہیں، اس لیے اپنی شادی میں ہوشیار اور چوکنا رہیں۔

اللہ ہمیں برائی سے، برے لوگوں سے، ان سے جو برائی کرتے ہیں اور دوسروں کو برائی کی دعوت دیتے ہیں، محفوظ رکھے یا کریم۔ آمین

جزاک اللہ خیرا آپ کے وقت کے لیے۔

_*کاش کہ یہ بات تیرے دل میں اتر جائیں*_
_*خواہش صرف اتنی ہےکہ کچھ الفاظ لکھوں جس سے کوئی گمراہی کے راستے پر جاتے جاتے رک جائے نہ بھی رکے تو سوچ میں ضرور پڑ جائے*_
*دوستو...!!!چلتے، چلتے ہمیشہ کی طرح وہ ہی ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کہ اگر کبھی کوئی قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سی زحمت فرما کر اپنے دوستوں اور عزیزوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریراور لوگوں کے لیئے سبق آموز ثابت ہو!*
*کاش کہ یہ بات تیرے دل میں اتر جائیں*
*خواہش صرف اتنی ہےکہ کچھ الفاظ لکھوں جس سے کوئی گمراہی کے راستے پر جاتے جاتے رک جائے نہ بھی رکے تو سوچ میں ضرور پڑ جائے*
#everyone #story #urdu #khania

4 - 0

Shaborozurdunews
Posted 6 months ago

مسلم بچوں کی تعلیم کے بارے میں ایک غیر مسلم کے خیالات 😞

افسوس!!

مسلمانوں کی بستیوں میں ایک بھی کتابوں کی دکان یا لائبریری نہیں ملے گی ، لیکن ہوٹل پر ہوٹل کھل رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دماغ سکڑتے اور پیٹ بڑھتے جا رہے ہیں۔

دہلی کا اردو بازار جامع مسجد جہاں کبھی صرف کتابیں ملتی تھیں، آج صرف کباب اور بریانی ملتی ہے، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قوم کی ترقی کی رفتار سر سے ہٹ کر پیٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔

2 - 0

Shaborozurdunews
Posted 6 months ago

ایک عربی پوسٹ کا ترجمہ
ہم کیوں قبر کی نعمتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے، ہم یہ کیو‌ں نہیں کہتے کہ وہ سب سےبہترین دن ہوگا جب ہم اپنے رب سے ملیں گے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے تو ہم ارحم الراحمین کی لامحدود اور بیمثال رحمت اور محبت کے سائے میں ہوں گے، وہ رحمان جو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو دیکھا جو اپنا پاؤں اپنےبچے پر رکھنے سے بچا رہی تھی، تو آپ نے صحابہ سے فرمایا "بے شک ہمارا رب ہم پر اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے"

کیوں ہمیشہ، صرف عذاب قبر کی باتیں ہو رہی ہیں، کیوں ہمیں موت سے ڈرایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ہمیں، معاذ اللہ، پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارا رب ہمیں مرتے ہی ایسا عذاب دے گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ہم کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صرف عذاب ہی دے گا، ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر رحم کرے گا۔

ہم یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ جب قبر میں مومن صالح سے منکر نکیر کے سوال جواب ہو جائیں تو ہمارا رب کہے گا "میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اس کوجنت کے کپڑے پہناؤ اور جنت کی طرف سےاس کے لئےدروازہ کھول دو اور اس کو عزت کے ساتھ رکھو۔ پھروہ اپنامقام جنت میں دیکھےگا تو اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرے گا :پروردگار قیامت برپا کر تاکہ میں اطمینان کے ساتھ جنت چلا جاؤں۔ (رواہ احمد ، ابوداود)

ہم یہ بات کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارا عمل صالح ہم سےالگ نہ ہوگا اور قبر میں ہمارا مونس اور غمخوار ہوگا۔
جب کوئی نیک آدمی وفات پا جاتا ہے تو اس کےتمام رشتہ دار جو دنیا سے چلے جا چکے ہیں، ان کی طرف دوڑیں گے اور سلام کریں گے، خیر مقدم کریں گے۔ اس ملاقات کےبارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ "یہ ملاقات اس سے کہیں زیادہ خوشی کی ہوگی جب تم دنیامیں اپنےکسی عزیز سے طویل جدائی کے بعد ملتے ہو۔ اور وہ اس سے دنیا کے لوگوں کے بارے میں پوچھیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گا اس کو آرام کرنے دو یہ دنیا کے غموں سے آیا ہے۔ (صحیح الترغیب لالبانی)

موت دنیا کے غموں اور تکلیفوں سے راحت کا ذریعہ ہے۔ صالحین کی موت درحقیقت ان کے لئے راحت ہے۔اس لئے ہمیں دعاء سکھائی گئی ہے ۔۔
*اللھم اجعل الموت راحة لنا من كل الشر*..
(اے اللہ موت کو ہمارے لئے تمام شروں سے راحت کا ذریعہ بنا دے)۔

ہم لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ موت زندگی کا دوام ہےاور یہ حقیقی زندگی اورہمیشہ کی نعمتوں کا دروازہ ہے۔
ہم یہ حقیقت کیوں چھپاتے ہیں کہ روح جسم میں قیدی ہے اور وہ موت کے ذریعے اس جیل سےآزاد ہو جاتی ہےاور عالم برزخ کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان و زمان کی کوئی قید نہیں ہے، رہنا شروع کرتی ہے۔
ہم کیوں موت کو رشتہ داروں سےجدائی، غم اور اندوہ کےطور پر پیش کرتے ہیں، کیوں نہیں ہم یہ سوچھتے کہ یہ اپنے آباواجداد، احباب اور نیک لوگوں سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔
قبرسانپ کامنہ نہیں ہے کہ آدمی اس میں جائگا اور سانپ اس کو چباتا رہے گا بلکہ وہ تو حسین جنت اور حسیناوں کا عروس ہے جو ہمارے انتظار میں ہیں۔
اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنے اوپر خوف طاری مت کرو ۔
ہم مسلمان ہیں، اسلئے ہم اللہ کی رحمت سے دور نہیں پھینک دئے گئے ہیں۔
اللہ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدا نہیں کیا ہے۔ اللہ نےہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے کام کون سے ہیں اور ناراضگی کےکون سے ہیں اور ہم دنیا میں آزاد ہیں جو چاہے کریں۔
*اللھم اجعل خیر اعمالنا خواتیمھا وخیر اعما رنا او اخرھا وخیرا یامنا یوم ان نلقاک*
(اے اللہ ہمارے اعمال کا خاتمہ بالخیر کریں، ہماری آخری عمر کو بہترین بنا دیں اور سب سے بہترین دن وہ جس دن آپ سے ملاقات ہوگی۔ آمین ثم آمین

4 - 0

Shaborozurdunews
Posted 7 months ago

’’آپ کا ایک ووٹ ہندوستان کا مستقبل بچا سکتا ہے ‘‘
بی جے پی کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں بچا، اس لیے وہ جھوٹی خبروں کا سہارا لے رہی ہے
تحریر: دھرو راٹھی
ترجمانی : خان افسر قاسمی
جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا پیارا ملک آمریت کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ میڈیا بیچ دیا گیا ہے ۔۔۔۔ منی پور جل رہا ہے۔۔۔۔ چنڈی گڑھ اور سورت میں انتخابی دھاندلی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے جمہوری حقوق سلب کر لیے گئے۔۔۔۔ بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ ۔۔۔ کسانوں پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے گولے داغے گئے ۔۔۔۔ ہمارے اولمپک پہلوانوں کو ایک ریپسٹ کے خلاف احتجاج کرنے پر مارا پیٹا گیا۔۔۔۔ اپوزیشن لیڈر اروند کیجریوال اور ہیمنت سورین کو بغیر کسی ثبوت کے جیل بھیج دیا گیا۔ ۔۔۔ کیجریوال کو وقت پر انسولین نہیں دی گئی، انہیں مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔۔۔ سپریم کورٹ کے ججوں پر دباؤ ہے۔۔۔۔ای ڈی اور سی بی آئی بی جے پی کی واشنگ مشین کی کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ ۔۔۔ عصمت دری کرنے والوں کا ہاروں سے استقبال کیا جا رہا ہے۔۔۔۔ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالہ، انتخابی بانڈ گھوٹالے کو عوام سے چھپایا گیا۔۔۔۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن اب یہ دنیا کی سب سے بڑی آمریت بننے کے دہانے پر ہے۔۔۔۔!
ذرا سوچیں! آج ملک کی یہ حالت دیکھ کر بھگت سنگھ، نیتا جی سبھاش چندر بوس، بابا صاحب امبیڈکر اور گاندھی جی کیا سوچیں گے؟ کیا انہوں نے اس دن کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں ؟ ہم ایک اقتدار کے بھوکے سیاست داں کے لیے یہ میراث نہیں کھو سکتے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ہندوستانی عوام بیدار ہو جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ آپ تعلیم کے لیے ووٹ دیں۔ ۔۔۔ کسانوں کے لیے ووٹ دیں۔۔۔۔ خواتین کے حقوق کے لیے ووٹ دیں۔۔۔۔ پہلوانوں کے لیے ووٹ دیں۔۔۔۔ نوکریوں کے لیے ووٹ دیں۔ ۔۔۔ اسکولوں کے لیے ووٹ دیں۔ منی پور کے لیے ووٹ دیں۔۔۔۔ لداخ کے لیے ووٹ دیں۔۔۔۔ووٹ ایسے لیڈر کو دیں جس میں پریس کانفرنس کرنے کی ہمت ہو۔ ۔۔۔ ووٹ ایسے لیڈر کو دیں جو جھوٹی ضمانتیں نہ دے۔۔۔۔ ووٹ ایسے لیڈر کو دیں جو پڑھا لکھا اور حلیم ہو۔۔۔۔اور سب سے اہم جمہوریت کے لیے ووٹ دیں۔۔۔۔ بھارت کے لیے ووٹ دیں ۔
یاد رکھیں: اگر ہندوستان میں مکمل آمریت کا راج ہوجاتا ہے۔ آپ کی آواز ہمیشہ کے لیے دبا دی جائے گی۔ سوشل میڈیا مکمل طور پر حکومت کے زیر کنٹرول ہو گا۔ کسی بھی معاملے پر مظاہرے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آپ کیا کھاتے ہیں، کیا پہنتے ہیں، کیا دیکھتے ہیں، یہ سب حکومت کے کنٹرول میں ہوگا۔ جو سورت اور چندی گڑھ میں ہوا، پورے ہندوستان میں ہوگا ۔ 'ون نیشن زیرو الیکشن‘جو بھی آواز اٹھائے گا اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔ ہندوستان شمالی کوریا جیسا ہو جائے گا۔لیکن آپ کا ایک ووٹ یہ سب بدل سکتا ہے۔
اپنے ایک اور پیغام میں دھرو راٹھی نے کہا کہ ’’بی جے پی کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں بچا، اس لیے وہ جھوٹی خبریں پھیلا کر ہم ہندوستانیوں کو ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ ۔ جیسے ’’کانگریس شریعت لائے گی : وزیر اعلیٰ یوپی آدتیہ ناتھ۔ ‘‘، ۔ ’’ کانگریس آپ کی جائیداد مسلمانوں میں بانٹ دے گی :وزیر اعظم مودی‘‘۔ ، ’’کانگریس لائے گی وراثتی ٹیکس : وزیر داخلہ امت شاہ‘‘۔ یہ سب باتیں سو فیصد جھوٹ ہیں۔ بی جے پی کے بڑے لیڈران اب صرف آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں؛ بلکہ وہ آپ سے بالکل سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔ کانگریس کے انتخابی منشور میں ان سب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کانگریس کے انتخابی منشور میں اصل میں کیا وعدے کیے گئے ہیں: کانگریس سرکاری ملازمتوں میں ۳۰ لاکھ جگہیں بھر کر نوکریاں فراہم کرے گی۔ (منشور کا صفحہ ۳۰) ۔ کانگریس اپنے دور حکومت میں متوسط ​​طبقے پر کوئی ٹیکس نہیں بڑھائے گی (منشور کا صفحہ ۳۱)۔ کانگریس چھوٹے کاروباروں کی مدد کرے گی؛ تاکہ ملک کے تمام وسائل اڈانی جیسے امیر لوگوں کو نہ بیچے جائیں (منشور کا صفحہ (۲۸)۔۔۔۔آپ منشور کو خود پڑھ سکتے ہیں اور اسے چیک کر سکتے ہیں۔ دراصل یہ انتخابی بانڈز جیسی مودی کی پالیسیاں ہیں جنہوں نے ہندوستان کے عوام کا پیسہ لوٹ کر ارب پتیوں کو دے دیا ہے۔ اس لیے آپ کو بی جے پی کے انتخابی منشور میں ایسا کوئی وعدہ نہیں ملے گا۔ لہذا برین واش نہ ہوں!
جئے ہند، جئے بھارت
نوٹ: یہ تحریر معروف یوٹوبر دھرو راٹھی نے اپنے وہاٹس ایپ چینل پر جمعرات کو ہندوستانی وقت کے مطابق دو بج کر ۸ منٹ پر ہندی میں پوسٹ کی ہے ، اس کا اردو ترجمہ مولانا خان افسر قاسمی (ایڈیٹر ہفت روزہ ملی بصیرت ) نے کیا ہے۔

6 - 1

Shaborozurdunews
Posted 1 year ago

3 - 0

Shaborozurdunews
Posted 1 year ago

بھارتی اسکول میں ٹیچر کی طالب علم کو بچوں سے پٹوانے کی ویڈیو وائرل
بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر مظفر نگر کے مقامی اسکول میں ٹیچر کی جانب سے معصوم بچے کو دیگر طلبہ سے پٹوانے کی ویڈیو وائرل ہوگئی ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کلاس میں موجود ٹیچر نے ایک بچے کو اپنے سامنے کھڑا کیا ہوا ہے اور دیگر طالب علموں کو بلا کر وہ بچے کو تھپڑ لگواتی ہیں۔
بچے باری باری آتے ہیں سزا میں کھڑے بچے کے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں، ایک بچے کے آہستہ سے مارنے پر ٹیچر ناراض ہوتی ہے اور بڑے بچے کو بلا کر سزا میں کھڑے طالب علم کو مزید پٹواتی ہے، جس پر وہ رونا شروع کردیتا ہے۔

خاتون ٹیچر کے اس عمل پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جبکہ بچے کے والد نے اس حوالے سے کہا کہ وہ اب اپنے بچے کو اس اسکول میں پڑھنے کیلئے دوبارہ نہیں بھیجے گا۔

مظفر نگر پولیس کا کہنا ہے کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خاتون ٹیچر نے تحریری طور پر معافی مانگ لی ہے۔

2 - 0

Shaborozurdunews
Posted 1 year ago

دل کی گہرائیوں سے مبارکباد ‏

چندریان 3

کامیاب لینڈنگ پر

اسرو کے تمام سائنسدانوں کو مبارکباد

4 - 0

Shaborozurdunews
Posted 1 year ago

Happy independence day
youtube.com/@shaborozurdunews

2 - 2