Channel Avatar

learn with safi ullah @UCaj2DOSOct4lEXU6MPCu7ew@youtube.com

4.3K subscribers - no pronouns :c

Different topics of Islamic video and Islamic shorts


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

Plz my channel like our subscribers karo
Support my channel

4 - 0

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

ALLAH ka name ko like karo subscribe karo plz plz 🙏 😢 💖 😭 💓

6 - 0

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

Allah ke naam ko like karo subscribe karo

3 - 0

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

پندرہ شعبان کے بارے میں کوئی مرفوع حدیث صحیح یا حسن یا ایسی ضعیف روایت جس کا ضعف معمولی ہو مروی نہیں ہے اور نہ کوئی اثر قوی یا ضعیف ہی موجود ہے۔‘‘
پندرہ شعبان کی شب میں قبرستان جانا
پندرہ شعبان کی رات میں قبرستان جانے والی حدیث سخت ضعیف ہے۔ آپ ﷺ کا پندرہ شعبان کو بقیع قبرستان جانے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا آپ ﷺ کی تلاش میں قبرستان جانے کا واقعہ بڑی شد ومد کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، کیونکہ صرف یہی حدیث فضائل شب نصف شعبان کے متعلق کتب ستہ میں ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں پائی جاتی ہے۔
اس روایت کو بیان کرنے والے کبھی بھی اس روایت کے متعلق امام ترمذی کا وہ قول نقل نہیں کرتے ہیں جو انھوں نے درج کیا ہے اگر امام ترمذی کا قول بیان کردیا جائے تو البقیع کے اس واقعہ کی پوری عمارت زمین بوس ہوجائے۔
امام ترمذی المتوفی ۲۷۹ھ نے یہ واقعہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے اس طرح نقل کیا ہے ایک شب میں نے رسول اﷲ ﷺ کو موجود نہیں پایا۔ میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی سو آپ ﷺ بقیع میں تھے تو فرمایا: کیا تمھیں اندیشہ تھا کہ اﷲ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا۔ میں نے کہا: یا رسول اﷲ! میں نے جانا آپ ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اترتا ہے پندرہ شعبان کی رات میں آسمان دنیا کی طرف، اپنے بندوں کو بخشتا ہے قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے عدد سے زیادہ۔
سنن ترمذی ابواب الصوم باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان 3/ 364 رقم الحدیث 736
اس روایت کی سندی حیثیت خود امام ترمذی نے اس طرح تحریر فرمائی ہے:
میں نے محمد بن اسمٰعیل (امام بخاری) سے سنا وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے تھے اور کہتے تھے کہ یحییٰ بن کثیر روایت کررہے ہیں عروہ سے یحییٰ بن کثیر کو سماع نہیں ہے یحییٰ بن کثیر سے یہ روایت دو جگہ سے منقطع ہے اور منقطع روایت محدثین کے نزدیک ناقابل قبول ہے اور جو روایت دو جگہ سے منقطع ہو اسے محدثین کی اصطلاح میں معضل کہتے ہیں۔ جو انتہائی شدید قسم کی ضعیف بلکہ منکر و مردود ہوتی ہے اس لیے حافظ بدر الدین عینی ابن دحیہ اور ابن العربی مالکی نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔
اس روایت سے یہ استدلال کرنا کہ پندرہ شعبان کی شب میں قبرستان جانے کا اہتمام سنت اور کار ثواب ہے، درست نہیں۔ رسول اﷲ ﷺ اکثر رات کو قبرستان جایا کرتے تھے اور اس کی ترغیب بھی دیتے تھے، لیکن اس عمل کو پندرہ شعبان کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔ اگر پندرہ شعبان کو قبرستان جانے کی اس قدر فضیلت ہوتی تو رسول اﷲ ﷺ خاموشی سے اس طرح بستر سے اٹھ کر نہ جاتے، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو اس کی خبر دیتے جب کہ روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو بھی مطلع نہیں کیا۔
پندرہ شعبان کی شب میں تخصیص کے ساتھ قبرستان جانے کا ثبوت دور نبوی ﷺ میں کہیں نہیں ملتا۔ اس کے بعد دور صحابہ میں بھی کسی ایک صحابی سے اس کا اہتمام ثابت نہیں، نہ ہی کسی تابعی اور ائمہ اربعہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
زیارت قبور کی اجازت احادیث میں ملتی ہے اور اس کا مقصد بھی بیان کردیا گیا ہے کہ اس سے موت یاد آتی ہے اور عبرت حاصل کی جاتی ہے، مگر دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ پندرہ شعبان کی رات میں قبرستان کی طرف نوجوان لڑکیاں اور عورتیں، مرد اور بوڑھے بچوں کے قافلے نکل پڑتے ہیں اور خاص کر نوجوان لڑکیاں اور عورتیں اس طرح بے پردگی اور عریاں نکلتی ہیں کہ دل و نگاہ کی عفت تار تار ہوجاتی ہے، تقویٰ پانی کی طرح بہہ جاتا ہے، اس رات قبرستان میں خوب چراغاں اور روشنی کی جاتی ہے اور ایک میلے کا سا منظر نظر آتا ہے۔ ایسے بھیڑ بھاڑ اور شور و غل کے ماحول میں کوئی کس طرح موت کو یاد کرکے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔
چراغاں کرنا مجوسی سازش
جشن عید میلاد النبی، پندرہ شعبان اور رمضان کے موقع پر چراغاں کرنا بدعت ہے۔ یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی رحمہٗ اﷲ اپنے ایک مطبوعہ مضمون بدعت میں تغیر مذہبی کے سبب اختلاط مذاہب کے ذیل میں بحوالہ حجۃ اﷲ البالغہ لکھتے ہیں:
’’مولود کے موقع پر یا رمضان کے زمانے میں چراغاں اب تقریباً ایک مذہبی شعار ہوگیا ہے، لیکن درحقیقت اس کا دقیق سبب یہ ہے کہ اس قسم کی روشنی کی ابتدا برامکہ کے زمانہ میں ہوئی۔ اس زمانہ میں شعبان کی پندرہ شب کو ایک مبتدعانہ نماز پڑھی جاتی تھی اور اس کے لیے نہایت اہتمام کیا جاتا تھا۔ برامکہ پہلے مجوسی مذہب رکھتے تھے اور آگ مجوس کا معبود ہے۔ اس طرح انھوں نے قدیم مذہب کی محبت میں آگ کو روشنی اور چراغاں کی صورت میں اسلام کا بھی ایک شعار قرار دے دیا۔‘‘
رسالہ الندوہ، جلد ۸، شمارہ 11، ص8، بابت ماہ نومبر 1911ء
شیخ ابن العربی فرماتے ہیں:
’’مسجدوں میں خوشبو کی دھونی رکھنے کو سب سے پہلے یحییٰ بن خالد برمکی نے رواج دیا جو خلیفہ وقت کے وزیر و درباری تھے، اس سے ان کا مقصد مجوسیت کا احیاء تھا۔‘‘
المنکرات، ص76
بعض مورخین نے لکھا ہے:
’’برمکیوں نے ہارون رشید کو مشورہ دیا تھا کہ کعبہ شریف میں خوشبو والی انگیٹھی رکھی جائے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان اپنی عظیم عبادت گاہوں میں آگ رکھنے سے مانوس ہوں اور اسے رواج دیں اور اس طرح رفتہ رفتہ مجوسیت کا غلبہ ہوجائے۔ ہارون رشید کو جب ان کی سازش کا احساس ہوا تو انھوں نے برمکیوں کا قلع قمع کردیا۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسجدوں میں آگ روشن کرنا اور چراغاں کرنا سلف صالحین کا طریقہ نہ تھا، نہ وہ مسجدوں کو مزین کرتے تھے۔ یہ سب باتیں طریقۂ سلف کے خلاف ہیں اور اسی طرح پندرہ شعبان کو آتش بازی و پٹاخہ کرنا بھی غلط ہے۔
پٹاخہ پھلجھڑوں سے جیسے پُر ہے دیوالی
شب برات میں پوری ہے اس کی نقالی
میں اس تماشے میں کرتا ہوں تین شر کا شمار
ضیاع مال، ضیاع عمل، ضیاع وقار

0 - 0

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

امام بخاری نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یحییٰ ابن کثیر نے عروہ سے نہیں سنا ہے اور اسی طرح حجاج نے یحییٰ بن ابی کثیر سے نہیں سنا ہے۔
سنن الترمذی 3/ 116
حجاج اور یحییٰ دونوں مدلس ہیں او ردو دو جگہ انقطاع پایا جاتا ہے۔ امام دارقطنی نے کہا ہے کہ حدیث کی سند مضطرب اور غیر ثابت ہے۔ (اسنی المطالب، ص80)
غرضیکہ یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کے سلسلہ رواۃ میں حجاج بن ارطاۃ ہے جس کو تمام محدثین نے باتفاق ضعیف قرار دیا ہے۔
اس روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی صحت مشتبہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا تنہا رات میں دیر گئے قبرستان جانا قرین مصلحت نہیں اور آپ ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے یہ سوال کرنا کیا تمھیں یہ اندیشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اﷲ اور رسول تمہاری حق تلفی کریں گے، ایک ایسا سوال ہے جس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ حضرت عائشہ تو خیال کرسکتی تھیں کہ آپ ﷺ کسی ضرورت سے اپنی دوسری ازواج کے ہاں تشریف لے گئے ہوں گے۔ لیکن اس میں اﷲ کی طرف سے حق تلفی کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے جو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اس بدگمانی میں مبتلا ہوتیں؟ پھر اگر پندرہویں شعبان کی شب ایسی فضیلت والی ہوتی کہ اس میں لا تعداد مردوں کی بخشش ہوجاتی ہے تو آپ پہلے ہی لوگوں کو بتادیتے تاکہ وہ اس شب میں عبادت و غیرہ کا اہتمام کرتے یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ اس فضیلت والی شب سے اپنے اصحاب کو باخبر نہ کریں، یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو بھی اس کی خبر نہ ہو اور اتفاق سے جب وہ قبرستان جائیں تو انھیں اس کا پتہ چلے؟ اس قسم کے معمے ضعیف حدیثیں ہی پیدا کرتی رہتی ہیں۔ سنت رسول ہمیشہ روشن ہوتی ہے اور دلوں میں یقین پیدا کرتی ہے۔
8- حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص کی روایت:
عن ابن عمرو مرفوعا من قرأ لیلۃ النصف من شعبان الف مرۃ قل ہو اللّٰہ احد فی مائۃ رکعۃ لم یخرج من الدنیا حتی یبعث اللّٰہ الیہ فی منامہ مائۃ ملک ثلاثون یبشّرونہ بالجنۃ وثلاثون یومنونہ من النار وثلاثون یعصمونہ من ان یخطی وعشر یکیدون من عاداہ۔
(مسند أحمد 176/2)
’’ابن عمرو بن العاص رسول اﷲ ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس نے پندرہ شعبان کی رات میں سو رکعت کے اندر ایک ہزار بار قل ھو اﷲ احد پڑھ لیا تو وہ دنیا سے روانہ نہیں ہوگا، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اس کے پاس خواب میں سو فرشتے بھیجے گا، تیس جنت سے نجات کی بشارت، تیس جہنم سے نجات اور تیس لغزشوں اور غلطیوں سے بچائیں گے اور اس کے علاوہ دس دشمنوں کا دفاع کریں گے۔‘‘
’’حدیث کی تخریج‘‘:
امام احمد بن حنبل رحمہٗ اﷲ نے اس حدیث کی تخریج کی ہے۔
’’حدیث کی سند‘‘: عن ابن لہیعۃ عن حی بن عبداللّٰہ عن ابی عبد الرحمٰن الحبلی عن عبد اللّٰہ بن عمروبن العاص مرفوعاً۔
’’حدیث کا حکم‘‘: ابن لہیعہ مختلط ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں حی بن عبداﷲ یہ صدوق راوی ہیں، کبھی وہم بھی ہوجاتا ہے، صغار تابعین کا زمانہ پایا ہے مگر کسی صحابی سے ان کی ملاقات نہیں۔ حافظ منذری نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(مرعاۃ المفاتیح 342/4، الترغیب 460/3)، امام ابن جوزی (الموضوعات الکبری 2/ 125)، ابن عراق (تنزیۃ الشریعۃ 93/2)، اور امام سیوطی (اللألی المصنوعۃ 2/ 95) نے اسے موضوع کہا ہے۔
علامہ البانی رحمہٗ اﷲ فرماتے ہیں کہ ابن لہیعہ اگرچہ ضعیف ہیں مگر رشدین سعد بن حی کی متابعت کی ہے۔ ابن حیویہ نے رشدین کی روایت ذکر کی ہے۔ اس طرح یہ حدیث حسن لغیرہٖ ہوجاتی ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 136/3)
9- حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کی روایت:
عن معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ قال من احیاء اللیالی الخمس وجبت لہ الجنۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطر ولیلۃ النصف من شعبان۔
’’جس نے پانچ راتوں کو جاگ کر عبادت کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، ذی الحجہ کی آٹھویں نویں اور دسویں رات، عیدالفطر کی رات اور پندرہ شعبان کی رات۔‘‘
’’حدیث کی تخریج‘‘: اس حدیث کی تخریج ابن ابی عاصم (السنۃ 1/ 224)، ابن حبان (الاحسان 470/7)، بیہقی (مرعاۃ المفاتیح 341/4) اور طبرانی (مجمع الزوائد 8/ 65) نے کی ہے۔
’’حدیث کی سند‘‘: مذکورہ بالا سبھی ائمہ کی سند مکحول الشامی پر جاکر مل جاتی ہے مکحول نے مالک بن یخامر اور انھوں نے معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے، مکحول یہ عبداﷲ الشامی ہیں، یہ ثقہ اور مشہور فقیہ ہیں لیکن بکثرت ارسال سے متصف ہیں۔
تقریب التہذیب،ص545
امام ذہبی نے تصریح کی ہے کہ مکحول اور مالک بن یخامر کے درمیان ملاقات ثابت نہیں ہے، ان دونوں کے درمیان انقطاع پایا جاتا ہے۔
’’حدیث کا حکم‘‘: مکحول اور عبدالمالک کے درمیان انقطاع کی وجہ سے سند ضعیف ہے۔ ابن ابی حاتم نے کہا میں نے اپنے والد سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو میرے والد نے اس حدیث کو منکر بتایا۔ (العلل المتناہیۃ 2/ 173)
علامہ محدث عبیداﷲ رحمانی مبارکپوری فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
مرعاۃ المفاتیح 4/ 342
10- حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کی روایت:
یہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی روایت کے ہم معنی ہے۔
’’حدیث کی تخریج‘‘
اس حدیث کو ابن ماجہ نے دو سندوں سے ذکر کیا ہے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان 1/ 445، رقم الحدیث 1390)
پہلی سند: عن ولید بن مسلم عن ابن لہیعۃ عن الضحاک بن ایمن عن الضحاک بن عبد الرحمن عن ابی موسیٰ۔
امام ابن جوزی نے العلل المتناہیۃ (1/ 447) میں اسی سند سے حدیث کو ذکر کیا ہے۔
دوسری سند: عن ابن لہیعۃ عن الزبیر بن سلیم عن الضحاک بن عبدالرحمن عن ابیہ عن ابی موسیٰ۔
اسی سند سے لالکائی اور ابن ابی عاصم نے حدیث کی تخریج کی ہے۔ (السنۃ 223/1)
تنبیہ: ابن ابی عاصم کی سند میں الزبیر بن سلیم کے بدلے الربیع بن سلیمان ہے حالانکہ صحیح الزبیر بن سلیم ہے جیسا کہ حافظ ذہبی وحافظ ابن حجر نے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: میزان الاعتدال (67/2)، تہذیب التہذیب (315/3)۔ علامہ البانی نے الربیع بن سلیمان ہی بغیر تعلیق کے ساتھ باقی رکھا ہے معلوم نہیں قصداً ایسا کیا گیا ہے یا سہواً ہوگیا ہے۔ (ظلال الجنۃ، 223/1)
’’حدیث کی سند‘‘: ولید بن مسلم ثقہ راوی ہیں مگر بہت زیادہ تدلیس کرتے ہیں اور تدلیس تسویہ بھی کرتے ہیں جو تدلیس کی سب سے بری قسم ہے۔
تقریب التہذیب ص 584
ابن لہیعۃ صدوق روای ہیں اپنی کتابوں کے جل جانے کے بعد مختلط ہوگئے تھے اس لیے اختلاط سے پہلے کی روایتیں مقبول ہیں اور اختلاط کے بعد کی روایتیں مردود سمجھی جاتی ہیں۔
الضحاک بن ایمن یہ کلبی ہیں مجہول راوی ہیں عبدالرحمن بن عزوب یہ ضحاک کے والد ہیں مجہول راوی ہیں۔ (تقریب التہذیب ص 346)
’’حدیث کا حکم‘‘: حدیث کی پہلی سند ولید بن مسلم کے مدلس، ابن لہیعہ کے مختلط، ضحاک بن ایمن کے مجہول اور ضحاک بن عبدالرحمن اور ابو موسیٰ کے درمیان انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دوسری سند ابن لہیعہ کے مختلط، زبیر بن سلیم کے مجہول اور عبدالرحمن بن عرزب کے مجہول نیز ابو موسیٰ سے ملاقات ثابت نہ ہونے کی بنا پر ضعیف ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح، 341/4)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ پندرہ شعبان کی شب کی فضیلت میں جتنی روایات ہیں سب باطل اور ضعیف ہیں۔ کوئی حدیث بھی صحیح نہیں اسی لیے ایسی حدیثیں بخاری اور مسلم میں جگہ نہ پاسکیں۔ جب ضعیف حدیث حجت ہی نہیں ہے تو یہ فضیلت ثابت کہاں سے ہوتی؟ اگر یہ شب فضیلت کی شب ہوتی تو صحابہ کرام میں اس کا چرچا ہوتا اور مشہور اور ثقہ راوی اسے روایت کرتے اتنی اہم بات جس کا عام چرچا ہونا چاہیے صرف ضعیف راویوں کو کیسے معلوم ہوگئی اور اب تو مسلمانوں نے ان ضعیف روایتوں کا سہارا لے کر شب برأت کو باقاعدہ تہوار کی شکل دے دی ہے۔
امام ابوبکر الطرطوشی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
ابن وضاح زید بن اسلم سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے مشائخ و فقہاء میں سے کسی کو بھی پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت کی طرف توجہ کرتے نہیں پایا اور نہ انھوں نے اس رات کو کسی رات پر فضیلت دی اور جب ابن ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد کا خیال یہ ہے کہ پندرہ شعبان کی رات کی عبادتوں کا ثواب شب قدر کی عبادتوں کے ثواب کے برابر ہے تو انھوں نے فرمایا: اگر میں سنتا اور میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تو میں اسے مارتا اور زیاد ایک قصہ گو تھا۔
زید بن اسلم المتوفی ۱۳۶ھ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے اساتذہ اور اپنے دور کے فقہاء میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ لیلۃ البرأت کی جانب کوئی توجہ دیتے یا اسے دیگر راتوں پر فضیلت دیتے ہوں اور ابن دحیہ کہتے ہیں شب برأ ت کی نمازوں کے بارے میں جتنی روایات ہیں سب موضوع ہیں، ان میں سے ترمذی والی روایت منقطع ہے اور جو شخص ان روایات کو صحیح سمجھ کر ان پر عمل کرے وہ جھوٹ بولتا ہے اور وہ شیطان کا خادم ہے۔ (الحوادث والبدع للطرطوشی)
اگر راتوں میں سے کسی رات کی تخصیص عبادت و قیام کے لیے جائز ہوتی تو جمعہ کی رات اس کی زیادہ حق دار تھی، اس لیے کہ اس کا دن تمام دنوں میں سب سے زیادہ بہترین دن ہے، جیسا کہ امام مسلم نے روایت کی ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
لا تختصوا لیلۃ الجمعۃ بقیام من بین اللیالی ولا تختصوا یوم الجمعۃ بصیام من بین الایام الا ان یکون فی صوم یصومہ أحدکم۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب کراہیۃ صیام یوم الجمعۃ منفرداً، 274/4، رقم الحدیث 148)
’’جمعہ کی رات کو دیگر راتوں کے مقابل میں قیام کے لیے مخصوص نہ کرو اور جمعہ کے دن روزہ کے لیے مخصوص نہ کرو۔ ہاں اگر کوئی پہلے سے روزہ رکھے ہو تو کوئی بات نہیں۔‘‘
نبی ﷺ نے اس شب کے قیام کی تخصیص سے منع فرمایا تو دوسری راتیں بدرجہ اولیٰ عبادت کے لیے مخصوص نہیں کی جاسکتیں، ہاں مگر جس رات کو عبادت کے لیے مخصوص قرار دیا گیا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسے لیلۃ القدر اور رمضان کی راتیں جن میں قیام مشروع ہے، ان میں عبادت اور اپنے رب کی رضامندی تلاش کرنا چاہئے۔

2 - 0

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

حدیث کا حکم‘‘: بزار کی رائے ہے کہ حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر راوی حضرت ابوبکرؓ ہیں، اس لیے ان کی عظمت حدیث کو تقویت بخشتی ہے اور عبدالملک غیر معروف ہیں، پھر بھی اہل علم نے اس حدیث کو بیان کیا ہے اور پسند فرمایا ہے۔
علامہ ہیثمی نے بزار کی رائے کی تردید کی ہے اور اسے ساقط اور ناقابل اعتبار گردانا ہے۔ (کشف الاستار، 435/2)
علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح اور سند کو عبدالملک و مصعب کی وجہ سے ضعیف بتایا ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ میں نے حدیث کی تصحیح صرف بکثرت صحابہ سے مروی ہونے کی بنا پر کی ہے۔ (ظلال الجنۃ، 223/1)
7) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت
عن عروۃ عن عائشۃ قال فقدت رسول اﷲ ﷺ ذات لیلۃ فخرجت فاذا ہو بالبقیع رفع رأسہ الی السمآء فقال لی کنت تخافین ان یحیف اﷲ علیک ورسولہ؟ قالت قلت ظننت انک اتیت بعض نسائک فقال ان اﷲ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی السمآء الدنیا فیغفر فیہا لأکثر من عدد شعر غنم بنی کلب۔ (سنن ترمذی مع التحفۃ 364/3، رقم الحدیث 736، سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان 444/1، مسند احمد 238/6، الترغیب والترہیب 283/3)
’’حضرت عروہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے ایک رات رسول اﷲ ﷺ کو موجود نہیں پایا۔ میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکل پڑی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ مدینہ کی قبرستان بقیع میں اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تمھیں یہ ڈر تھا کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے کہا: مجھے گمان ہوا کہ آپ ﷺ اپنی عورتوں میں سے کسی کے پاس گئے ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ پندرہ شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتا ہے۔‘‘
یہ حدیث ترمذی نے جس سلسلۂ اسناد کے ساتھ بیان کی ہے، وہ یہ ہے:
ہم سے احمد بن منیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں یزید بن ہارون نے خبر دی، وہ کہتے ہیں: ہمیں حجاج بن ارطاۃ نے خبر دی وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کرتے ہیں، وہ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔
اس حدیث کو نقل کرکے امام ترمذی نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کو ہم اسی اسناد سے جانتے ہیں جن کے راوی حجاج ہیں اور میں نے امام بخاری کو سنا، وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دے رہے تھے، وہ کہتے ہیں یحییٰ ابن کثیر نے عروہ سے نہیں سنا ہے، نیز امام بخاری کہتے ہیں حجاج نے یحییٰ ابن ابن کثیر سے نہیں سنا ہے۔
یعنی یہ حدیث اپنی اسناد کے لحاظ سے دو جگہ منقطع ہے ایک حجاج اور یحییٰ کے درمیان اور دوسرے یحییٰ اور عروہ کے درمیان۔ اس سے یہ واقعہ اور ارشاد رسول ثابت نہیں ہوتا۔
’’حدیث کی تخریج‘‘: اس حدیث کو امام ترمذی نے السنن، ابن ماجہ نے السنن، امام احمد نے مسند احمد، بیہقی نے سلسلۃ الصحیحۃ میں تخریج کی ہے۔
’’حدیث کی سند‘‘: ہر ایک کی مشترکہ سند یوں ہے عن حجاج بن ارطاۃ عن یحیٰ بن ابی کثیر عن عروہ عن عائشۃ مرفوعاً۔
’’حدیث کا حکم‘‘ : حجاج بن ارطاۃ! یہ صدوق راوی ہیں بکثرت غلطی اور تدلیس میں معروف ہیں (صدوق کثیر الخطا والتدلیس)۔ (تقریب التہذیب، ص152)
امام بخاری نے کہا ہے کہ حجاج نے یحییٰ بن ابی کثیر سے حدیثیں نہیں سنی ہیں۔
سنن ترمذی مع التحفۃ 3/ 365
یحییٰ بن کثیر یہ ثقہ اور ثابت ہیں لیکن تدلیس و ارسال کیا کرتے ہیں، عروۃ بن الزبیر سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے۔
(تہذیب التہذیب 11/ 268)

1 - 0

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

شب برأت کا ایک روزہ ساٹھ سال گذشتہ اور ساٹھ سال آئندہ کے روزے کے برابر ہے۔ امام ابن جوزی نے اس کو اپنی کتاب موضوعات میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت موضوع ہے اور اس کی اسناد تاریک ہے۔‘‘
5- حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے ایک چوتھی روایت مروی ہے:
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو پندرہ شعبان کی رات میں دیکھا آپ نے چودہ رکعت نماز پڑھی پھر بیٹھے اور چودہ مرتبہ سورہ فاتحہ، چودہ مرتبہ قل أعوذ برب الناس اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی اور آیت ’لقد جائکم رسول‘ الی آخرہ پڑھی۔ میں نے فراغت کے بعد آپ کے اس عمل کے بارے میں پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے اس عمل کی طرح کیا اسے بیس حج مبرور اور بیس سال کے روزوں کا ثواب ملے گا اور اگر اس دن کا روزہ رکھ لیا تو اسے دو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
امام بیہقی، زرقانی، ابن الجوزی، ابن عراق اور امام سیوطی نے اس پر ضعیف اور موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔
الموضوعات 13/2، تنزیۃ الشریعۃ 2/ 93، اللألی المصنوعۃ 3/ 60
6- حضرت ابوبکرؓ کی روایت:
پندرہ شعبان کی فضیلت میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
یطلع اﷲ الی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الا المشرک أو مشاحن۔
ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان 445/1، رقم الحدیث 1390)
’’پندرہ شعبان کی رات اﷲ تعالیٰ اپنے تمام مخلوق کے اعمال پر مطلع ہوتا ہے اور مشرک و کینہ پرور کے علاوہ تمام بندوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘
’’حدیث کی تخریج‘‘: اس حدیث کو بزار نے کشف الاستار (430/2)، ابن خزیمہ نے التوحید (326/3)، ابن ابی عاصم نے السنۃ (221/4)، لالکائی نے شرح الاعتقاد (438/5)، ابونعیم نے بحوالہ سلسلۃ الصحیحۃ (132/6)، بیہقی نے الترغیب والترہیب (283/7) میں روایت کیا ہے۔
سبھی ائمہ کی سندیں عبدالملک پر جاکر مل جاتی ہیں اور پھر سند یوں ہے:
عبد الملک عن مصعب بن ابی ذئب عن قاسم بن محمد عن ابیہ عن ابی بکر الصدیق مرفوعاً۔
’’حدیث کی سند‘‘
1) عبدالملک بن عبدالملک اس حدیث کا مدار انھیں پر ہے۔ امام بخاری نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی حدیثیں محل نظر ہیں۔ حافظ ذہبی نے کہا ہے کہ امام بخاریؒ نے ان کے بارے میں ’’فی حدیثہٖ نظر‘‘ کہہ کر ان کی یہی حدیث مراد لی ہے ابن حبان نے کہا ہے کہ عبدالملک کی حدیثوں کی متابعت کوئی نہیں کرتا۔ (میزان الاعتدال، 659/2)
واضح ہو کہ امام بخاری کا ’’فی حدیثہٖ نظر‘‘ کہنا شدید ضعف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ابن عدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ عبدالملک اس حدیث سے معروف ہیں اور عمروبن الحارث کے علاوہ کوئی ان سے یہ حدیث روایت نہیں کرتا اور یہ حدیث اس سند سے منکر ہے۔ (لسان المیزان، 67/4)
2) مصعب بن ابی ذئب۔ اس حدیث کے راویوں میں مصعب بن ابی ذئب ہیں، ابو حاتم نے ان کو غیر معروف بتایا ہے۔
(الجرح والتعدیل، 307/8)

0 - 0

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

اس کا ایک راوی عبدالرزاق بن ہمام ہے جس کے بارے میں امام نسائی فرماتے ہیں کہ اپنے آخری دور میں جو روایات انھوں نے بیان کی ہیں، وہ منکر ہیں۔
میزان الاعتدال، 610/2
اس حدیث کے سلسلہ میں علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری فرماتے ہیں:
لم اجد فی صوم یوم لیلۃ النصف من شعبان حدیثاً مرفوعاً صحیحاً واما حدیث علی الذی رواہ ابن ماجۃ بلفظ اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فقد عرفت انہ ضعیف جدّاً۔
اس سے قبل لکھتے ہیں:
وفی سندہ ابوبکر بن عبداﷲ بن محمد بن ابی سبرۃ القرشی العامری المدنی قیل اسمہ عبداﷲ وقیل قد ینسب الی جدہ رموہ بالوضع کذا فی التقریب وقال الذہبی فی المیزان ضعفہ البخاری وغیرہ وروی عبداﷲ وصالح ابنا احمد عن ابیہما قال کان یضع الحدیث قال النسائی متروک۔ (تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری، 53/2)
’’مجھے پندرہ شعبان کے روزے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث مرفوع نہیں ملی اور حضرت علی کی حدیث ’’فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا‘‘ سخت ضعیف ہے کیوں کہ اس کا ایک راوی ابوبکر بن عبداﷲ بعض محدثین کے نزدیک متہم بالکذب ہے اور امام بخاری نے ضعیف کہا ہے اور امام احمد نے کہا ہے کہ وہ حدیث گڑھتا تھا اور امام نسائی نے فرمایا کہ وہ متروک ہے، یعنی محدثین نے اس سے روایت کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نزول فرمانے کا جو ذکر ہوا ہے وہ بخاری اور مسلم کی حدیث کے مطابق ہر شب کے لیے ہے۔ اسے شب برأت کے لیے خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
معلوم ہوا کہ ابن ماجہ کی یہ روایت نہایت بودی ہے، اس لیے اس سے نہ نصف شعبان کی نماز ثابت ہوتی ہے اور نہ روزہ مگر عام طور سے علماء تحقیق کی زحمت نہیں کرتے اور لوگوں کو بدعتوں میں مشغول رکھتے ہیں۔
4- اسی طرح حضرت علیؓ ہی سے ایک تیسری روایت مروی ہے:
فان أصبح ذلک الیوم صائما کان کصیام ستین سنۃ ماضیۃ وستین سنۃ مقبلۃ رواہ ابن الجوزی فی الموضوعات وقال موضوع واسنادہ مظلم۔ (تحفۃ الأحوذی للمبارکفوری 3/ 368)

0 - 0

learn with safi ullah
Posted 11 months ago

3- حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے دوسری روایت ہے:
عن النبی ﷺ قال اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فان اﷲ ینزل فیہا لغروب الشمش الیٰ سماء الدنیا فیقول ألا من مستغفرلی فاغفرلہ الا مسترزق فارزقہ الا مبتلی فاعافیہ الا کذا الا کذا حتی یطلع الفجر۔
سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ، باب ماجاء فی لیلۃ الصنف من شعبان، 444/1۱
’’رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت اس شب میں آسمان دنیا کی جانب نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دوں، ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ میں اسے عافیت دوں، اس طرح کے ارشادات فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔‘‘
’’حدیث کی سند‘‘
حدثنا الحسن بن علی الخلال حدثنا عبدالرزاق انبانا ابن ابی سبرۃ عن ابراہیم بن محمد عن معاویۃ بن عبداﷲ بن جعفر عن ابیہ عن علی ابن ابی طالب۔
اس حدیث کا ایک راوی ابن ابی سبرۃ ہے جس کی کنیت ابوبکر ہے۔ اس کے بارے میں زوائد میں ہے کہ ضعیف ہے اور امام احمد بن حنبل اور ابن معین کہتے تھے کہ یہ حدیثیں وضع کرتا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک ہے۔ ابن معین کہتے ہیں وہ ضعیف ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں وہ ثقہ راویوں سے موضوع حدیثیں روایت کرتا ہے اس کو حجت بنانا صحیح نہیں۔
(تہذیب التہذیب، 48/12)

0 - 0