Channel Avatar

Atif Hameed @UCZleZEDUSCqjtIJmWpHinEA@youtube.com

28K subscribers - no pronouns :c

A complete infotainment channel.میرے چینل پر آپکو سیاحت انفا


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Atif Hameed
Posted 1 month ago

6 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

کار کو ونیلا آئس کریم سے الرجی
کاریں بنانے والے ایک بڑی کمپنی کو ایک تحریری شکایت ملی کہ ان کی کار کو ونیلا فلیور کی آئس کریم سے الرجی ہے ۔
شکایت کرنے والے نے لکھا کہ وہ رات کو ڈنر کے بعد فیملی کے ساتھ آئس کریم کھانے جاتا ہے اورجس دن وہ ونیلا فلیور کی آئس کریم کھاتا ہے، کار سٹارٹ ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ مگر یہ دقت کسی اور فلیور کے آئس کریم کے ساتھ نہیں ہوتی ۔
کمپنی والوں نے پہلے تو اس شکایت کو نظر انداز کیا۔ کیونکہ کار اور آئس کریم کے کسی فلیور کا کیا واسطہ ۔ مگر دوسری بار جب اسی کسٹمر نے پھر سے یہی شکایت کی تو بات کمپنی کے اعلیٰ حکام کے پاس پہنچی اور اب انہوں نے اس شکایت کو سنجیدگی سے لیا ۔ کمپنی کی طرف سے ایک انجنئیر کو کسٹمر کے پاس بھیجا گیا۔
انجنئیر نے کسٹمر سے سارا قصہ سنا۔ رات کو وہ اس کے ساتھ گیا۔ کسٹمر نے چاکلیٹ فلیور کی آئس کریم لی ۔ واپس آئے تو کار سٹارٹ ہوگئی ۔ دوسری رات سٹرابری فلیور کی لی تو پھر بھی آسانی سے سٹارٹ ہوگئی ۔ تیسری رات ونیلا فلیور کی باری آئی ۔ وہ آئس کریم لے کر آیا تو واقعی کار اسٹارٹ نہیں ہوئی ۔ انجنئیر کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا معاملہ ہے۔ ونیلا فلیور کی آئس کریم لانے سے کار سٹارٹ کیوں نہیں ہوتی ۔ ظاہر ہے کچھ تو مسٔلہ تھا ۔ انجنئیر نے تحقیق جاری رکھی ۔ وہ رات کو آئس کریم کھانے جاتے رہے۔
کچھہ دن بعد انجنئیر نے ایک بات نوٹ کی کہ ونیلا فلیور کی آئس کریم خریدتے ہوئے کم وقت لگتا تھا وہ چند منٹ میں ہی واپس آجاتے تھے ۔ ایسا اس لئے تھا کہ ونیلا فلیور کی آئس کریم کی ڈیمانڈ بہت زیادہ تھی ۔ اسلئے آئس کریم پارلر والوں نے ونیلا فلیور آئس کریم کا ایک کاؤنٹر پارلر کے باہر بھی لگا رکھا تھا، جہاں سے آئس کریم فوراََ مل جاتی تھی ۔ باقی فلیورز کیلئے اندر جانا پڑتا تھا اور کچھ دیر لگتی تھی۔
انجنئیر نے حساب لگایا جب کار کو جلد ہی دوبارہ سٹارٹ کیاجاتا ہے تو وہ اسٹارٹ نہیں ہوتی ۔ انجنئیر نے سوچا کہ مسٔلہ ونیلا فلیور آئس کریم کا نہیں ٹائم کا ہے جس کی وجہ سے کار سٹارٹ نہیں ہوتی۔۔ بالاخر اس نے وجہ ڈھونڈ ہی لی ۔ وہ تھی Vapour Lock
کسٹمر ونیلا فلیور کے علاوہ کسی فلیور کی آئس کریم خرید کرلاتا تو کار کے انجن کو ٹھنڈا ہونے کا وقت مل جاتا اور کار آسانی سے اسٹارٹ ہوجاتی ۔ ونیلا فلیور کی آئس کریم جلدی مل جاتی تھی ۔ وقت کم لگتا تھا اور اس طرح کارکے انجن کو ٹھنڈا ہونے کا وقت ہی نہیں مل پاتا تھا ۔۔
اکثر مسٔلے اسی طرح کے ہوتے ہیں۔
ضرورت یہ سمجھنے کی ہوتی ہے کہ مسٔلہ ہے کیا۔ غوروفکر سے ہر مسٔلہ سمجھا اور اس کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ " Why " اور " How " بہت اہم ہیں۔

4 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

Scam spotted ⚡⚡😮 ☠️☠️☠️☠️💀💀

4 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

Agli video kis topic pe bnaon?

3 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

شام 7 بجے

4 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

چین کی گھڑی 😂😂😂

6 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

Konsi ziada fuel efficient hai?

5 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

*امریکیوں پر فریفتہ حسینائیں !!*

سامیہ جمال ایک خوبرو مصری حسینہ اور اداکارہ تھی سارا عرب ان پر فریفتہ تھا لیکن یہ ایک امریکی نوجوان کو دل دے بیٹھی وہ بھی ان کی محبت میں پاگل تھا.

امریکی نوجوان سامیہ کی خاطر مسلمان بھی ہوا ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ "سامیہ تم جس خدا پر ایمان رکھتی ہو وہ یقینا بہت عظیم ہوگا"

ان کی شادی اور ہنی مون کے جب چرچے ہوئے کئی مصری جوانوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی.

ان دونوں کی شادی کو محبت کی ایک لازوال داستان قرار دیا جا رہا تھا کہ ایک دن سامیہ جمال صبح اٹھی تو امریکی شوہر غائب تھا،معلوم ہوا کہ سب کچھ لوٹ کر فرار ہوچکا ہے،پیسہ،بنک بیلنس،دوشیزگی سب کچھ.

اگلے چند ماہ میں پتا چلا کہ وہ شخص سامیہ کی زندگی میں آیا ہی اسے لوٹنے کی غرض سے تھا.

مطلب یہ کہ سیاست رہی ایک طرف محبت میں بھی امریکی قابلِ بھروسہ نہیں ہیں.😎

4 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

Apko favorite Toyota ki konsi generation hy?

3 - 0

Atif Hameed
Posted 1 month ago

80 کی دہائی تک جنات کی زبان کچھ اور تھی، وہ انسانوں کو دیکھ کر ’آدم بو آدم بو‘ کیا کرتے تھے۔ 90 کی دہائی تک وہ ’ہوہوہاہا‘ کرتے رہے۔ آج کل شاید گونگے ہوگئے ہیں، بولتے کچھ نہیں بس کسی سائے کی طرح جھلک دکھا کر غائب ہوجاتے ہیں۔ گئے وقتوں میں عورتیں چھت پر کھلے بال جاتی تھیں تو جن عاشق ہوجاتے تھے، آج کل چھتوں پر ڈانس کرتی ہیں سوشل میڈیا پر ڈالتی ہیں لیکن جنات ایک نظر بھی ڈالنا گوارا نہیں کرتے۔
پہلے رات کے وقت لوگ گھروں میں دبک جاتے تھے کیوں کہ جنات انہیں راستے میں چمٹ جایا کرتے تھے، آج کل رات کو نکلیں تو پیچھے سے ون ٹو فائیو کی آواز سن کر دل دہل جاتا ہے۔چالیس پچاس سال پہلے تک اگر کوئی باامر مجبوری درخت کو ’سیراب‘ کرتا تھا تو جنات اُسے بھی چمٹ جایا کرتے تھے اور اس بدتمیزی کے بدلے اسے عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا کردیتے تھے۔ آج کل شایدجنات اس لئے کسی کو کچھ نہیں کہتے کہ کس کس سے بدلہ لیں۔
آپ کو یاد ہوگا ویران گزر گاہوں پر الٹے پائوں اور لمبے دانتوں والی چڑیل گھوما کرتی تھی۔ وہ بھی شاید مرکھپ گئی ہے کیوں کہ آج کل ویرانوں میں زیادہ رونق ہوگئی ہے۔ پہلے وقتوں میں جنات کے سینگ ہوا کرتے تھے، اب نہیں ہوتے بلکہ ان کی جگہ ’سِنگ اے سونگ‘ والے جن آگئے ہیں۔ پرانے جن تہذیب یافتہ اور پردہ دار تھے، ان کی صرف حرکتیں دکھائی دیتی تھیں، وہ خود نظروں سے اوجھل رہنا ہی پسند کرتے تھے۔ یہ اکثر کسی کے گھر اینٹیں وغیرہ یا دیواروں پر خون کے چھینٹے وغیرہ پھینک کر دل بہلا لیا کرتے تھے۔ آج کل یہ جس گھر میں بھی جاتے ہیں وہاں کے درودیوار پہلے ہی خون میں لت پت ہوتے ہیں۔ کتنے اچھے جنات تھے پرانے۔ صرف اکیلے بندے کو ڈراتے تھے۔ ایک سے زیادہ بندوں کی صورت میں یہ خود ڈر جایا کرتے تھے۔یہ جس لڑکی پر بھی عاشق ہوتے تھے اس کی شادی اس کی پسندکے لڑکے سے کرواکے چھوڑتے تھے.

جنات قبرستان میں بھی رہتے تھے ،تاہم، شہر پھیلنے کی وجہ سے ان کی اکثریت کوچ کرچکی ہے البتہ کبھی کبھار کوئی انسانی شکل والا جن کسی لڑکی کی قبر کھود تے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ سچ پوچھیں توکبھی کبھی لگتاہے جیسے جنات بھی اپنا شاندار ماضی بھولتے جارہے ہیں۔ پہلے یہ کسی جلالی بابے کے دم سے ہی نکل جایا کرتے تھے، اب یہ انسان کو نکال دیتے ہیں اور خود اندر ہی رہتے ہیں۔ کہاں گئے وہ جنات جو اناج کی بوریاں کھاجایا کرتے تھے؟ اب تو ذخیرہ اندوزوں کے گودام کے گودام بھرے رہتے ہیں اور کوئی چوری نہیں ہوتی۔ شایدسی سی ٹی وی کیمروں کی وجہ سے جنات بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ ہوا میں اڑنے والے جن بھی ناپید ہوگئے ہیں۔پہلے جنات پلک جھپکتے دنیا بھر کی خبریں لادیا کرتے تھے اب شاید کسی جن سے یہ سہولت مانگی جائے تو وہ گھور کر کہے گا’’ماما گوگل کر‘‘۔

عشروں پہلے کے جنات لگ بھگ جانوروں جیسی شکل کے ہوا کرتے تھے، ان کی دم بھی ہوتی تھی اورجسم پر لمبے لمبے بال بھی۔ اس کے باوجود وہ چوں کہ شرم و حیا والے جنات تھے لہٰذا ان کی جتنی بھی تصاویر رسالوں میں شائع ہوتی تھیں ان میں انہوں نے باقاعدہ سترپوشی کی ہوتی تھی۔پرانے جنات ہر مذہب کے ہوتے تھے لہٰذا جلالی بابا کے پوچھنے پر اپنا مذہب وغیرہ فوراً بتا دیا کرتے تھے۔ اب بارڈر کراس کرنا کوئی آسان کام نہیں رہا لہٰذا جنات بھی ہر جگہ لوکل ہوگئے ہیں۔ وہ وقت یاد کیجئے جب کسی جگہ جنات کا شبہ ہوتا تھا تو شاہ جنات کا حوالہ دینے پر کوئی وقوعہ پیش نہیں آتا تھا۔ کتنے اچھے تھے وہ جنات جنہیں کوئی دکھ ہوتا تھا تو رات کے وقت بلی کے جسم میں گھس کر دھاڑیں مار مار کر رو لیا کرتے تھے۔ بلی کے رونے کی آواز تو آج بھی سنائی دیتی ہے لیکن اس میں جن کی بجائے جدائی کا دکھ زیادہ محسوس ہوتاہے۔ یہ کبھی کبھی گدھے کے جسم میں بھی گھس جاتے تھے، تاہم، کچھ ظاہری علامات کی وجہ سے سیانوں کو پتا چل جاتا تھا کہ اس گدھے میں جن آچکا ہے۔ان جنات کے بچے بھی ہوتے تھے جو ماں باپ کے منع کرنے کے باوجود انسانوں کو تنگ کرتے تھے۔ ظاہری بات ہے اب تک یہ بچے جوان ہوچکے ہوں گے اور سمجھ چکے ہوں گے کہ انسانوں کو تنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ کام انسان اُن سے بہتر کرسکتے ہیں۔

پرانے جنات عموماً چراغوں اور پرانی بوتلوں میں اپنی سزا کے دن گزارا کرتے تھے اور جوکوئی بھی انہیں رہائی دلاتا تھا اس کی دو تین خواہشیں ضرور پوری کیا کرتے تھے۔ اب یہ شاید اس لئے بھی نظر نہیں آتے کیونکہ انسان کی کوئی ایک خواہش تو رہی نہیں۔پہلے وقتوں میں گھر کے چاروں کونوں میں کلمات پڑھ کر پھونکنے سے جنات نہیں آتے تھے۔ اب گھس آتے ہیں، دروازے توڑ کر، دیواریں پھلانگ کر۔ یہ جدید جنات کسی کی نہیں سنتے۔ ماضی کے جنات کی ایک خاص پہچان تھی کہ وہ جب انسانی شکل اختیار کرتے تھے تو پلکیں نہیں جھپکتے تھے۔ میں نے کل کچھ لڑکوں کو دیکھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ جنات تھے کیونکہ وہ گرلز کالج کے باہر موجود تھے جونہی چھٹی ہوئی ان کی آنکھیں گیٹ کی طرف اٹھیں۔ میں کافی دیر تک ان کی آنکھوں کی طرف دیکھتا رہا، اِن میں سے کسی نے ایک لمحے کے لئے بھی پلکیں نہیں جھپکیں…
کاپی۔ پیسٹ

3 - 0