in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c
ایک جاہل مطلق نے مسلک اہل حدیث کا جنازہ پڑھا دیا ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 نومبر 2024ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں اہل حدیث یوتھ فورس کے تحت کانفرنس میں ایک "شخص" نے جو چند روز پہلے ڈاکٹر ذاکر نائیک پر "جاہل مطلق" کا فتوی لگا رہا تھا، مسلک اہل حدیث کا جنازہ خوب دھوم دھام سے پڑھا دیا ہے۔ اس کو لوگ شیخ الحدیث کہتے ہیں۔ اس کو شیخ الحدیث کہنا، ایسا گناہ ہے کہ جس پر توجہ واجب ہے۔
اس شخص کا کہنا ہے کہ ہم ائمہ اور محدثین کے ماننے والے ہیں۔ اگر ائمہ یہ کہہ دیں کہ وضو میں پورے پاوں نہیں دھونے بلکہ صرف ناخن دھونے ہیں جبکہ قرآن میں لکھا ہے کہ پاوں دھونے ہیں اور حدیث میں لکھا ہے کہ پاوں دھونے ہیں تو ہم ائمہ کی بات مانیں گے، قرآن اور حدیث کی بات چھوڑ دیں گے۔ یہ قرآن اور حدیث دونوں کی صریح تو-ہین ہے۔
یہ اس شخص کی سبقت لسانی نہیں ہے، یہ اس سے پہلے بھی قرآن مجید کی تو-ہین کر چکا ہے کہ ہزار آیات بینات کو ہم سلف کی رائے پر قربان کر دیں گے۔ اسے آیات بینات کا معنی بھی نہیں پتہ اور بارہ لاکھ لوگوں کو مسلمان کرنے والوں کو "جاہل مطلق" کے فتوے بانٹ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ قرب قیامت کی نشانی ہے کہ لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں اور وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور انہیں بھی گمراہ کریں گے۔
ہماری تجویز یہ نہیں ہے کہ ایسے شخص کو بلڈ پریشر کی گولی کھانے کا کہا جائے جیسا کہ بعض اہل حدیث تجویز کر رہے ہیں۔ یا ایسے شخص کو لائبریری تک محدود کر دیا جائے اور منبر پر جگہ نہ دی جائے جیسا کہ بعض دوسرے اہل حدیث کا کہنا ہے۔ ہماری تجویز تو یہ ہے کہ ایسے ہذیان گو شخص کے خلاف تو-ہین قرآن اور تو-ہین رسالت دونوں کا پرچہ ہونا چاہیے، تبھی اس کی اذیت سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہیں گے۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔ اس شخص کی ویڈیو کا لنک پہلے کمنٹ میں ہے۔
نوٹ: کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تقلید یہی ہے، تو تقلید یہ نہیں ہے۔ تقلید یہی ہوتی تو ائمہ، فقہاء اور محدثین کے شاگرد دلیل کی بنیاد پر ان سے اختلاف نہ کرتے۔ یہ تو اللہ اور اس کے رسول پر ائمہ، فقہاء اور محدثین کو ترجیح دینے والا کفر ہے۔
9 - 6
سعودی حکمرانوں کی رضاجوئی کے لیے پوری پاکستانی قوم کو نمک حرام یہی مدخلیت ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مدخلی فکر اور سوچ کے حامل ایک انڈین مولانا صاحب ہیں جو پوری پاکستانی قوم کو نمک حرام کہہ رہے ہیں۔ ہم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ مدخلیت کیا ہے، تو نیچے لگا اسکرین شاٹ دیکھ لیں، یہی مدخلیت ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مدخلیت سعودی حکمرانوں کے "اٹھانے" کا نام ہے لیکن یہ غیر مناسب زبان ہے، ایسے نہیں کہنا چاہیے۔ اشارے کنایے میں بھی ایسی بات کیوں کریں کہ جس سے آپ کا مسلمان بھائی ام بیلیسمینٹ فیل کر سکتا ہو۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مدخلیت پالش کرنے کا دوسرا نام ہے کہ معاصر مدخلیت سعودی حکمرانوں کے بوٹ پالش کرنے میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہے جیسا کہ ملحق اسکرین شاٹ میں واضح ہے۔
بلاشبہ سعودی عرب کے چندے سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن پوری پاکستانی قوم نے نہیں بلکہ اہل حدیث حضرات کے ایک گروہ نے جیسا کہ امریکی امداد سے پاکستانی حکمرانوں اور اسٹیبلشمینٹ نے فائدہ اٹھایا، اب اس کی گالی پوری پاکستانی قوم کو کس خوشی میں دے رہے ہیں؟ سعودی ریال اور امریکی امداد سے فائدہ اٹھانے والا یہ مخصوص اور چھوٹا سا طبقہ جو کہ قوم کا ایک فی صد بھی نہیں ہے، اگر جواب میں بوٹ پالش کریں تو یہ احسان کا بدلہ ہے جو وہ اتار رہے ہیں۔ لیکن پوری قوم کو طعنہ دینا کہ وہ نمک حرام ہے تو بھائی جس نے سعودی چندے کھائے ہیں، وہ اس قوم کا ایک فی صد بھی نہیں ہے۔ باقی ساری قوم اس معاملے میں بالکل انجان اور بری الذمہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سعودی حکمران مدخلی گروہ کا عقیدہ بن چکے ہیں، یہ ان کے دفاع میں کسی بھی غیر اخلاقی حد کو نہ صرف کراس کر سکتے ہیں بلکہ اس کی مذہبی دلیل بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
باقی آپ اردوغان کو گالیاں دیں، خوشی سے دیں، ہمارا کوئی چاچا ماما نہیں ہے۔ لیکن یہ جو ایک حضرت صاحب فرما رہے ہیں کہ امیر محمدبن سلمان کے مجسمے پر تنقید کرنے والو، کان کھول کر سن لو، اس کا جواب یہ ہے کہ اردوغان کا بھی مجسمہ ہے، اور قائد اعظم کا بھی ہے، تو ان کے خلاف کیوں نہیں بولتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر مجسمے کے خلاف بولنا چاہیے۔ مجسمہ سازی بت پرستی کا آغاز ہے۔ اردوغان کے مجسمے کے علاوہ امیر محمد بن سلمان کے مجسمے کے خلاف بھی بولیں، ہم یہی کہتے ہیں اور یہی اعتدال کی راہ ہے۔
ابھی یو ٹیوب پر آپ کو ایسے مدخلی مل جائیں گے جو اپنے آپ کو دھڑلے سے صیہونی مسلم کہتے ہیں اور ساتھ میں کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی سلفی بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے مدخلی بھی ہیں جو اسرائیل کے بائیکاٹ اور فلسطین کی آزادی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ واقعی میں ایسے بد بخت موجود ہیں تو یو ٹیوب پر سرچ کر لیں، آپ کو ویڈیوز مل جائیں گی۔ ٹائمز آف اسرائیل میں آرٹیکلز پبلش ہو رہے ہیں کہ کیا مدخلی سلفی، اسرائیل کے دوست ہیں؟ اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ یہ سب کچھ تو دیکھ کر لگتا ہے، یہ کسی اور ریوڑ کا حصہ تھے جو غلطی سے اس امت کے گروہ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ہم نے انہیں امت سے نہیں کاٹا، انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو پوری امت سے کاٹ کر علیحدہ کر لیا ہے۔
قرآن مجید نے سورۃ توبہ میں ایک گروہ منافقین پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ اے مسلمانو، تمہارے لیے بھی یہی بہتر تھا کہ وہ تمہارے ساتھ غزوہ تبوک میں نہیں نکلے۔ اگر وہ نکلتے تو فتنہ وفساد ہی برپا کرتے۔ تو اس میں امت کے لیے ایک خیر کا پہلو ہے کہ یہ کفر وایمان اور خیر وشر کے اس معرکے میں امت مسلمہ کی بجائے ملت کفر کی سائیڈ پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس پر حسرت نہیں کرنی چاہیے، اس امت کے حق میں یہ بہتر ہی ہو گیا ہے۔ الحمد للہ علی ذالک۔ باقی اگر یہ رجوع کر لیں اور اپنے آپ کو امت میں شامل کرنا چاہیں تو ان کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ یہی قرآن سے سمجھ آتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
109 - 39
عبد اللہ ناصر رحمانی صاحب کی پنجاب کے اہل حدیث علماء کے منہج پر نقد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے شیئر کیا گیا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے، کچھ فیس بک پوسٹوں میں اور واٹس ایپ گروپس میں نظر آ رہا ہے اور شیئر ہو رہا ہے اور لوگ ہم سے رائے بھی پوچھ رہے ہیں۔ اس کلپ میں مولانا عبد اللہ ناصر رحمانی صاحب کا بیان ہے کہ ایک شخص باہر سے آیا ہے، اور وہ بدعتیوں یعنی صوفیوں، اشعریوں، وجودیوں اور حلولیوں سے متاثر ہے، ان کے نام لیتا ہے، اور اپنے آپ کو ان کا شاگرد کہتا ہے۔ یہاں مراد ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں۔ آگے چل کر مولانا نے کہا کہ بہت سے مشاہیر اور عمائدین اس بندے کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں، اس کو پروٹوکول دے رہے ہیں، یہ کیوں، منہج کہاں گیا؟ توحید کی غیرت کہاں گئی؟ یہاں مراد فیصل آباد اور لاہور کے شیوخ وعلماء اور مرکزی جمعیت اہل حدیث وغیرہ کے زعماء ہیں۔
ویسے ایک بات پر حضرت کے لیے داد بنتی ہے کہ بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنے منہج کی ڈانگ پنجاب کے اہل حدیث علماء اور جماعتوں پر پھیر دی ہے لیکن ابھی بھی مکمل نہیں پھری۔ جب تک یہ ڈانگ مکمل نہیں پھرے گی، اس وقت تک پاکستانی اہل حدیثوں کا منہج بھی خراب رہے گا اور توحید کی غیرت بھی سوئی رہے گی۔ اور وہ ڈانگ جو کہ پھیرنی ابھی باقی ہے، شیخ الکل فی الکل علامہ نذیر حسین دہلوی سے لے کر مولانا اسماعیل سلفی رحمہم اللہ تک تمام اکابر اہل حدیث علماء پر جو وجودیوں، حلولیوں، اشعریوں اور صوفیوں کی نہ صرف تعریف کرتے رہے بلکہ ان کا دفاع بھی کرتے رہے، ان کو پروٹوکول دیتے رہے، ان سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ بلکہ اس منہجی صفائی مہم میں مزید کچھ پیچھے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تک بھی جانا پڑے گا جو مجموع الفتاوی میں اشعریوں اور صوفیوں کی ایک جماعت کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں اور ایمان وتوحید کی غیرت اور سلفی منہج کو گنوا بیٹھتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ جو کچھ تو پنجاب کے علماء نے کیا ہے، وہ برصغیر پاک وہند کی تحریک اہل حدیث کے اکابر علماء کے طرز عمل ہی کا تسلسل ہے۔ اب جبکہ عملا ایک نئی جماعت المسلمین سندھ میں وجود میں آ ہی چکی ہے تو اب ہمت کریں اور اس سلفیت اور اہل حدیثیت کی تمام تاریخ سے جان چھڑوا لیں کیونکہ وہ تو صوفیوں اور وجودیوں کی تعریفیں تو کجا، خود ان سے بھری پڑی ہے۔ آپ کے اہل حدیث علماء کیا، خاندانوں کے خاندان صوفی رہے ہیں اور صوفیت کی تعلیم دیتے رہے۔ آپ کے محدثین کی ایک بڑی جماعت اشعری رہی، شارحین حدیث میں اکابر ائمہ اشعری المسلک رہے۔ ہر جگہ ان اشعریوں اور صوفیوں کا احترام ہو رہا ہے۔ تو منہج ٹھیک ہے کس کا؟
صرف پنجاب کے علماء کو یہ طعنہ کیوں؟ کہ ذاکر نائیک کو پروٹوکول دے دیا۔ علامہ نذیر حسین دہلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، شیخ عبد اللہ محدث روپڑی اور مولانا داود غزنوی رحمہم اللہ وغیرہ کو اس سعادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے کہ ان کو ابھی تک منہج سے باہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی انہیں توحید کی غیرت دلائی گئی، نہ ہی ان کی کتابوں کو پڑھنے سے روکا گیا، اور نہ ہی ان کی کتابوں کو پبلش ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ یہ سب اکابر وجودیوں اور حلولیوں کے امام شیخ ابن عربی کی تعریف وتعظیم یا دفاع مسعود میں رطب اللسان ہیں۔ پھر غزنوی اور لکھوی خاندان کے علماء کا تصوف اور صوفیت سے تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
حق تو یہ ہے کہ اس مدخلی فکر اور سوچ کی سند آپ اپنے سے دو تین لڑیاں اوپر نہیں دکھا سکتے چہ جائیکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تک پہنچایا جائے۔ اس کی سند منقطع ہے۔ آج آپ یہ ثابت کر سکتے ہیں یہ منہج کہ جس پر آپ عمل پیرا ہیں، آپ کے فلاں استاذ اس پر عمل پیرا تھے، اور ان کے استاذ بھی اس پر عمل پیرا تھے یہاں تک کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تک پہنچا دیں۔ تو جس منہج کی عملا صورت حال یہ ہو کہ وہ خود اس منہج کے امام شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ تعالی کے قدموں تک بھی نہ پہنچتا ہو، اس پر اتنا اصرار کرنا کوئی معقول بات نہیں ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ شیخ ربیع المدخلی کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ ان کی منہج کی تلوار سے کتنے علماء قتل ہو رہے ہیں، وہ بھی ھجر المبتدع کی تحریک سے اپنے طلباء کو روکنا شروع ہو گئے تھے کہ اتمام حجت کے بغیر اور فلاں فلاں شرائط کے بغیر نہ کیا کریں، اس کا فائدہ نہیں ہے یا اس سے فساد بڑھے گا۔
تحریک اہل حدیث اس وقت مزید کسی جماعت المسلمین کا تحمل نہیں رکھتی۔ یہ سوچ اسے محلے کی مسجد کی جماعت بنا کر رکھ دے گی۔ اللہ عزوجل سمجھ عطا فرمائے کہ جسے آپ بدعتی کہہ رہے ہوتے ہیں، آپ اس کے نزدیک بدعتی ہوتے ہیں، اشاعرہ کے علماء کو پڑھ کر دیکھ لیں۔ تو بدعتی سے نفرت کا قول کریں، پھر انہیں بھی حق دیں کہ دین کے نام پر وہ آپ سے بھی نفرت رکھیں۔ اب اس نفرت نفرت کھیلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ امت پہلے ہی تقسیم ہے۔ عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان کے بعد فلسطین بھی کھنڈر بن چکا ہے اور ہم ابھی اس بحث میں الجھے ہیں کہ ہمیں اپنے کلمہ گو مسلمان بھائیوں سے کب اور کیسے کتنی نفرت کرنی ہے، کمال ہے!
جنت کی متعین طور بشارت تو دس کے لیے تھی لیکن جہاں ہر کسی نے خود کو جنتی اور دوسرے کو حتمی جہنمی سمجھ رکھا ہو، وہاں ہی ایسے شدت پسند بیانیے جنم لیتے ہیں۔ اتنی گھٹن پیدا نہ کریں، پہلے ہی فضا میں بہت تعفن ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سرکاری دورے پر تھے، سرکار نے ان کو پروٹوکول دیا ہے، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف بولنا حکومت وقت کے خلاف بولنا اور ریاست پر نقد کرنا ہے جو خود آپ کے منہج کے مطابق خروج ہے۔ اور آپ کے نزدیک بھی خروج بدعت ہے۔ اور اب لوگ اس صغری کبری کے بعد آپ پر اور آپ کی جماعت پر بدعت کی احادیثیں اور سلف کے اقوال اپلائی کرنا شروع کر دیں۔ بس یہی وہ دلیل کی لونڈی ہے جس سے سب کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اللہ عزوجل سمجھ عطا فرمائے۔
نوٹ: مدخلیوں کے نہ صرف کمنٹس ڈیلیٹ کیے جائیں گے، بلکہ انہیں بلاک کرنے کا بھی شرف حاصل ہو گا، اگر تو وہ حضرت العلام کی اس تنقید سے متفق ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں یہ مدخلی گروپ ایک اسٹیٹ گیسٹ کے خلاف نقد اور پروپیگنڈا کرنے کی وجہ سے ریاست کے باغی ہوتے ہوئے خوارجی بن چکے ہیں۔ اور خوارجی بدعتی ہیں۔ اور ان کے بقول بدعتیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ لہذا اس پوسٹ پر ان کے منہج پر عمل کیا جائے گا۔ کم از کم یہ شکوہ نہ رہے کہ ہم نے کبھی صحیح منہج پر عمل ہی نہ کیا تھا۔ ویڈیو لنک پہلے کمنٹ میں۔ (ڈاکٹر حافظ محمد زبیر)
150 - 38
مدارس میں کیمرے لگائیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت شاہ صاحب کے وضاحتی بیان نے ان مریدوں کو بہت مایوس کیا ہے جو یہ کہہ رہے تھے کہ ویڈیو فیک ہے، ایڈیٹنگ ہے اور اے آئی جینریٹڈ ہے۔ وضاحتی بیان میں مجرم نے مان لیا ہے کہ ویڈیو اصلی ہے اور واقعہ ہوا ہے۔ البتہ کس بنیاد پر ہوا ہے، اس میں اختلاف کیا ہے۔
ہر کچھ عرصے بعد کسی مدرسہ میں مار پیٹ یا چائلڈ اے بیوز کا واقعہ سوشل میڈیا پر ہائی لائیٹ ہو جاتا ہے اور ہم کالج یونیورسٹی کو کوسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کالج یونیورسٹی کو کوسنے سے ہمارا امیج نیوٹرل سوسائٹی کی نظر میں بہتر نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں امیج بلڈنگ پراپر ایتھیکل ویلیوز اور اخلاقی فریم ورک میں کرنی پڑے گی۔ ورنہ تو سوسائٹی کا بڑا حصہ مذہب بیزار ہو جائے گا۔
ایک آواز یہ بھی اٹھائی جا رہی ہے کہ حضرت شاہ صاحب کے خلاف پرچہ ہونا چاہیے لیکن کون کرے گا؟ حکومت؟ تو وہ تو چاہتی ہے کہ ایسے مذہبی کردار موجود رہیں تا کہ ہر کچھ عرصے بعد ایسے کیسز ہائی لائیٹ ہوں اور سوسائٹی کا ایک بڑا حصہ مذہب بیزار رہے تا کہ سیکولر ازم کی راہ ہموار ہو۔ وہ کبھی بھی ایسے شاہوں کے خلاف پرچے نہیں دیں گے۔ یہ ان کے ساتھی ہیں، پیٹی بند بھائی ہیں، یہ ان کے جرائم پر اس معنی میں پردہ ڈالتے ہیں کہ عام آدمی کو یہ میسج جاتا ہے کہ مذہبی اور غیر مذہبی جب ایک جیسے ہیں، سب چور ہیں، سب حرام خور ہیں تو تمہارے پاس مذہب کی جانے کی کوئی وجہ ترجیح موجود نہیں ہے۔
کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ وفاق کو اس مدرسے کا الحاق ختم کرنا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ یہ وفاق وغیرہ کسی بھی مسلک کے ہوں، حکومت وقت کی سی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے منتظمین خود اس نظام کے بینیفیشری ہوتے ہیں یعنی اس سے فائدہ اٹھانے والے ہوتے ہیں لہذا ان کے لیے ایسا کوئی فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہاں اگر بہت زیادہ سوشل پریشر ڈویلپ ہو جائے تو پھر اپنے فیس سیونگ کے لیے وہ کوئی ایسا فیصلہ کر سکتے ہیں ورنہ عام حالات میں نہیں۔
ہاں ان حالات میں اگر کسی سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کچھ رول پلے کر سکتے ہیں تو وہ مدارس کو فنڈز دینے والے فالوورز ہیں۔ معاشرے کو دین سے متنفر ہونے سے بچانا ہے تو مدارس کو فنڈز دینے والے اصحاب خیر کو اپنا فنڈ اس شرط کے ساتھ مشروط کرنا ہو گا کہ مسجد اور مدرسہ کے ہال، کلاسز، صحن وغیرہ میں سی سی ٹی وی کیمرے لگیں گے اور ان کی پراپر مانیٹرنگ ہو گی۔ مسجد اور مدرسہ میں کسی بھی قسم کا تشدد اور مار پیٹ ممنوع اور قابل جرمانہ متصور ہو گا اور ایسا کرنے والے استاذ یا منتظم کو مسجد اور مدرسہ سے فارغ اور بے دخل کر دیا جائے گا۔
244 - 31
Workshop on Marital Life by Dr. Hafiz Muhammad Zubair.
Registration Link:
forms.gle/4yYeoCYc8oc32s1u6
156 - 6
“The Prophet (ﷺ) said: ‘Friday is the chief of days, the greatest day before Allah. It is greater before Allah then the Day of Adha and the Day of Fitr. It has five characteristics: On it Allah created Adam; on it Allah sent down Adam to this earth; on it there is a time during which a person does not ask Allah for anything but He will give it to him, so long as he does not ask for anything that is forbidden; on it the Hour will begin. There is no angel who is close to Allah, no heaven, no earth, no wind, no mountain, and no sea that does not fear Friday.’”
Sunan Ibn Majah 1084
377 - 8
اہل حدیث نوجوان، شیعہ، منکر حدیث اور ملحد ہو رہے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علماء کے ایک واٹس ایپ گروپ میں کسی عزیز نے شیئر کیا کہ ان کے دو جاننے والے نہ صرف اہل حدیث سے شیعہ ہو گئے ہیں بلکہ شیعیت کے مبلغ اور داعی بھی بن گئے ہیں۔ پھر فیس بک پر کچھ اہل حدیث ساتھیوں کی پوسٹس سے معلوم ہوا کہ ان کے جاننے والے مدارس سے فارغ اہل حدیث طلباء میں انکار حدیث اور الحاد کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ میں کئی ایک ایسے اہل حدیث طلباء کو جانتا ہوں جو کہ مدرسہ سے فارغ ہیں اور آج غامدی فکر کے ترجمان ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے، اور اس کی وجہ کیا ہے؟
دیکھیں، جتنا کچھ بیان کیا جا رہا ہے، صورت حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ایک زمانے میں اہل حدیث کی تحریک ایک علمی تحریک تھی، ان کے علماء خود بھی کتاب کھولتے تھے، سائل کو بھی کتاب کھول کر دکھاتے تھے، خود بھی پڑھتے تھے اور دوسروں کو بھی پڑھنے پر لگاتے تھے تو ایسے اہل حدیث وجود میں آ رہے تھے جو پڑھے لکھے تھے۔ اب ان کے نوجوان علماء کی ایک بڑی تعداد نے جگت بازی میں ماسٹرز کر لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میدان کے بھی وہ چاہت فتح علی خان ہی بن سکے ہیں، کوئی نمایاں کارنامہ یہاں بھی سر انجام نہیں دے پائے کہ مورخ ان کے اس فن کو سراہنے کے لیے تحسین کے دو چار کلمات ان کے نام کر سکے۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن اہل حدیث یا دیگر مسالک کے علماء اور اسکالرز نے ان موضوعات پر جدید کام کیا ہے، ان کو تو منہج اور مسلک سے فارغ کر دیا گیا اور اپنے نوجوانوں کو بھی بدظن کر دیا کہ اس کو نہیں پڑھنا، فلاں کو نہیں سننا، اب نوجوان ان کو پڑھتا اور سنتا تو ہے نہیں۔ باقی خود جو الحاد، لبرل ازم اور سیکولرازم کے خلاف کام کرنے کی کوشش کی ہے، وہ ایک لطیفے سے کم نہیں ہے کہ نفس مسئلہ کا ہی علم نہیں ہے، جدید سے واقفیت نہیں ہے، ماڈرن سائنسز کی شد بد نہیں ہے۔ ایسے میں ان کے کسی نوجوان کا کسی عقلی ومنطقی علمی کتابی ملحد، لبرل اور جدیدیت کے نمائندے سے جب واسطہ پڑتا ہے تو اس کے پاس اپنے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں ہوتا لہذا وہ ان کے افکار کے سامنے ڈھے جاتا ہے۔ اب حسن اللہ یاری کے خلاف کتنے منہجیوں نے کام کیا ہے، سوائے اس کا مذاق اڑانے کے۔ وہ کتابیں کھول کر دکھاتا ہے، آپ جگتیں مارتے ہیں۔ لوگ اس کی طرف جا رہے، آپ کو چھوڑ رہے ہیں کیونکہ آپ کے پاس ابھی اپنوں کی منہجی غلطیاں نکالنے سے فرصت نہیں ہے تو آپ واقعی کے فتنوں کے خلاف کیا کام کریں گے۔
الحاد، لبرل ازم اور سیکولر ازم کے خلاف سید مودودی، ڈاکٹر ذاکر نائیک، ڈاکٹر اسرار احمد، یوتھ کلب اور بعض دوسرے لوگوں کا کام اچھا تھا لیکن ان سے استفادے سے روک دیا اور خود کچھ کر نہ سکے لہذا سوشل میڈیا کے اس سیلاب میں کہاں تک اپنے نوجوانوں کو غار کے اصحاب کہف بنا کر بچا سکیں گے؟ نہیں، یہ منہج زیادہ دیر نہیں چلنے والا کہ اپنے دڑبے کی مرغیوں کو یہ وعظ کرتے رہیں کہ پڑوسیوں کے مرغے کے قریب نہیں جانا، وہ ایک دفعہ چلی گئی تو اب اسی کی ہو جائے گی کیونکہ اس نے مزہ چکھ لیا ہے یعنی کتاب کھولنے کا مزہ۔ دوسرے لوگ کتاب کھلوا رہے ہیں، مصادر کا مطالعہ کروا رہے ہیں، اور آپ جگتوں کے ذریعے گھر کے دڑبے میں ساری زندگی گزار دینے کا سبق دے رہے ہیں۔
تو اگر نوجوان نسل کو الحاد، لبرل ازم، سیکولر ازم، انتہا پسندی، جدیدیت جیسے فتنوں سے بچانا ہے تو ایک تو ان موضوعات پر کسی بھی مسلک کے عالم نے اچھا کام کیا ہو، اس سے خود بھی استفادہ کریں اور دوسروں کو بھی کروائیں۔ دوسرا جگتوں میں ماسٹرز کرنے کی بجائے دینی مصادر کے مطالعہ میں ماسٹرز کریں۔ مصادر بھی گنے چنے نہیں، کہ یہ عالم کی شان نہیں ہے۔ یہاں جس فن میں صلاحیت نہیں ہوتی، اس فن ہی کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں یعنی انگور کھٹے ہیں۔ اب ذاکر نائیک کے بغض میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ تقابل ادیان کے مطالعہ کا فائدہ ہی کیا ہے؟ بعضوں نے یہ بحث بھی شروع کر رکھی ہے کہ اتنے مسلمان کرنے کا بھی فائدہ ہی کیا ہے، رہنا تو انہوں نے بے عمل ہی ہے؟ بعضوں نے کہا کہ ذاکر نائیک دکھلاوے کے مسلمان بنا رہا ہے یعنی پری پلینڈ اسکرپٹ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ یعنی دوسرے کے جہاد کا بھی کوئی فائدہ نہیں اور تمہاری جگتیں بھی نہی عن المنکر میں شامل ہیں۔
یہ جو ایک تمسخرانہ اسلوب پروان چڑھ گیا ہے، یہ علم دشمنی ہے۔ اور علم دشمن نظریے کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی۔ 2030ء کے وژن کے بعد آپ شاید ہی علمی دنیا میں نظر آئیں لیکن آپ کو اس جملے کی گہرائی کا بھی علم نہیں ہو گا کیونکہ نہ تو عالمی سیاسی منظر نامے پر کوئی گہری نظر ہے، نہ سوسائٹی کی ڈائینامکس کا پتہ ہے، نہ معاشیات میں کوئی خاطر خواہ خدمات ہیں، نہ معاصر فتنوں الحاد، لبرل ازم، سیکولر ازم، فیمینزم اور کیپٹلزم وغیرہ کے علمی اسٹرکچر سے واقفیت ہے۔ جو تھوڑی بہت اسکل آٹھ سال میں حاصل ہو پائی ہے، وہ بھی ادھوری اور ناقص ہے کہ اسے دیکھ کر بھی نصرت فتح علی خان نہیں بلکہ چاہت فتح علی خان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ مجمع تو چاہت فتح علی خان بھی لگا لیتا ہے۔ لائکس، ویوز اور ری ایکشنز تو وہ بھی حاصل کر لیتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں سمجھ رہا کہ ان مذہبی جگت بازوں کی ساری اچیومینٹس بطور مسٹر بین کے ہیں نہ کہ دلیپ کمار جیسے لیجنڈ کی۔ یعنی جو کرنا ہے، بے کمالا ہی کرنا ہے، کسی چیز میں تو کمال کر کے دکھا دو۔
141 - 59
The Prophet (ﷺ) said: "It is obligatory for every Muslim that he should take a bath once in seven days, when he should wash his head and body."
Reference : Sahih al-Bukhari 897
584 - 6
Dr. Hafiz Muhammad Zubair Official channel.