Channel Avatar

Ramzan Cheena Mankera @UCPVXMn-k4xE9Cw2nU_hNVLg@youtube.com

15K subscribers - no pronouns :c

First Biggest Educational News Chennal for Government All Em


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Ramzan Cheena Mankera
Posted 2 days ago

حکومت پاکستان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایف بلاک، پاکستان سیکرٹریٹ اسلام آباد

انتہائی فوری

ایڈیشنل سیکرٹری بی آئی ایس پی

ٹیلی فون: 051-9246318

فیکس: 051-9246319

نمبر 010/UCT/DFO/BISP-2017‏

اسلام آباد، 19 اگست، 2024

موضوع: باقاعدہ سہ ماہی قسط (جولائی- ستمبر) 2024 کی تقسیم کے دوران انتظامی تعاون کی درخواست

میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے مستفیدین کو باقاعدہ اور ہنگامی تقسیم کے پروگراموں کے تحت فنڈز کی بروقت، منظم اور شفاف تقسیم کے لیے پنجاب کی صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کیے گئے تعاون کا اعتراف اور تعریف کرنا چاہتا ہوں۔

2. یہ بتانا ہے کہ بی آئی ایس پی QTR-1 (جولائی-ستمبر، 2024) کے لیے یو سی ٹی کی ریگولر قسط @ روپے تقسیم کرنے جا رہا ہے۔ پورے ملک میں تقریباً 9.3 ملین مستفیدین کے لیے 10,500/ فی UCT مستفید۔ اپنے مستفیدین کو شفافیت اور سہولت کو مزید یقینی بنانے اور فراہم کرنے کے لیے، بی آئی ایس پی نے ریٹیلر (POS) کی بجائے 22 اگست 2024 سے آخری قسط کی سابقہ مشق کے مطابق مقررہ کیمپ سائٹس پر کنٹرول ماحول میں ادائیگی جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چار (4) نئے بینک یعنی Jazz، Telenor، HBL۔ مائیکرو فنانس، بینک آف پنجاب کے علاوہ حبیب بینک لمیٹڈ اور بینک الفلاح کو پارٹنر بینکوں کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔

3. مندرجہ بالا کے پیش نظر، 10,500 روپے فی مستفید کی مذکورہ باقاعدہ سہ ماہی قسط کی آسانی سے تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے، BISP کو خیبر پختونخوا کے صوبائی پولیس آفس سے درج ذیل تعاون کی ضرورت ہے:

‏a بی آئی ایس پی کفالت کے مستفیدین کو مخصوص کیمپ کی جگہوں پر تقسیم کی سہولت کو یقینی بنانے کے لیے، براہ کرم BISP افسران کے نامزد کردہ بینک عملے اور BVS خوردہ فروشوں کو کسی بھی ممکنہ لاک ڈاؤن اور دفعہ 144 کے نفاذ سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے، تاکہ وہ نقد رقم کی تقسیم کے عمل کو انجام دے سکیں۔

ب سرکاری عمارتوں میں کیمپ کی جگہوں کا تعین جس میں اسکولوں/کالجوں/کسی بھی تعلیمی سہولت، کمیونٹی ہالز، اسٹیڈیم/گراؤنڈز، ٹاؤن ہالز یا یوسی دفاتر، بی ایچ یوز، ویٹرنری ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ شیلٹرز، پینے کے پانی، سیٹنگ ایریا اور دیگر تک محدود نہیں ہے۔ انتظامی انتظامات نامزد سائٹس کے پتے

متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے ذریعے BISP فیلڈ ٹیموں کے ساتھ اشتراک کیا جا سکتا ہے۔

مزید ضروری انتظامات کے لیے جلد از جلد دفاتر

اس کے مطابق BISP اور پارٹنر بینک۔ علیحدگی کے لیے کوششیں کی جا سکتی ہیں۔

نقد رقم کی تقسیم کے مقامات اور انتظار کے علاقوں کا۔ فوکل پرسن کی نامزدگی

چیف سیکرٹری کے دفتر سے اور ایک کیش کے دفتر سے

ڈپٹی کمشنرز جن کے ساتھ BISP زونل ڈائریکٹر جنرل اور

زونل ڈائریکٹرز/ڈپٹی ڈائریکٹرز/اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کوآرڈینیٹ کر سکتے ہیں،

9 - 0

Ramzan Cheena Mankera
Posted 3 days ago

اپنے بچوں کو مہمان نوازی کے آداب سکھائیں"
ان کو سکھائیں کہ اگر اسے کسی کے گھر دعوت پر بلایا جائے:
1. وہ خالی ہاتھ نہ جائے، اور اپنے ساتھ کسی غیر مدعو شخص کو نہ لے جائے۔
2. وقت پر پہنچے، نہ بہت جلدی اور نہ بہت دیر سے۔
3. اچھے کپڑے پہنے اور اس کی خوشبو اچھی ہو تاکہ میزبان کو احساس ہو کہ وہ اس کی عزت اور قدر کرتا ہے۔
4. قالین جوتے یا چپل پہن کر داخل نہ ہو، چاہے میزبان نے اجازت دی ہو۔
5. گھر میں داخل ہوتے وقت دروازے کے سامنے نہ کھڑا ہو، بلکہ دائیں یا بائیں جانب ہو جائے تاکہ میزبانوں کو تکلیف نہ ہو۔
6. جو موجود ہو اسے کھائے، اور کوئی خاص ڈش نہ مانگے، چاہے اچار ہی کیوں نہ ہو۔
7. کھانا کھاتے وقت شور نہ مچائے، اور چبانے کے دوران منہ بند رکھے۔
8. جب کوئی کھانا سرو کرتا ہے تو سر جھکائے موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔ یا ویسے ہی توجہ نہیں کرتے ۔ کھانا لگانے والے کو یہ اچھا نہیں لگتا اس لیے کوشش کریں کہ اس کی طرف متوجہ ہوں اور کوئی ہلکی پھلکی بات چیت کریں تاکہ اسے ریسپیکٹ محسوس ہو.
9. بیٹھنے کی جگہ خود منتخب نہ کرے، بلکہ میزبان جہاں بٹھائے وہیں بیٹھے، کیونکہ ہر کوئی اپنی جگہ کی خصوصی ضروریات جانتا ہے۔
10. بغیر کسی جھجک کے آرام سے کھانا کھائے، اور اگر کسی چیز میں دلچسپی نہ ہو تو خاموشی سے اسے نہ کھائے اور صرف پسندیدہ چیزیں کھائے۔
11. میزبان کا شکریہ ادا کرے اور اس کے لیے مزید نعمتوں کی دعا کرے، اور باورچی (ماں یا بیوی) کو بھی شکریہ کہے اور بتائے کہ کھانا کتنا مزیدار تھا۔
12. بغیر اجازت کے ہاتھ دھونے نہ جائے، اور اگر میزبان اجازت دے تو یقینی بنائے کہ اس نے سنک صاف کر دی ہے اور کوئی کھانے کے باقیات نہ چھوڑے، اور تولیہ استعمال کرنے کے بعد اسے اچھی طرح پھیلائے۔
13. گھر کی تفصیلات پر نظر نہ ڈالے۔
14. اگر کسی اور کے ساتھ گیا ہو اور وہ ہاتھ دھونے اٹھے تو اس کی جگہ نہ بیٹھے کیونکہ یہ کسی اور کا حق ہے۔
15. اگر گھر میں نماز پڑھنی ہو تو امامت نہ کرے جب تک کہ میزبان درخواست نہ کرے۔
16. اگر داخل ہوتے وقت لوگ کسی موضوع پر بات کر رہے ہوں تو ان کی گفتگو کو اچانک نہ بدل دے، اور نہ ہی کسی کی بات کاٹ کر خود بولنا شروع کرے، کیونکہ یہ اس کی عزت کو کم کرتا ہے۔
17. روانگی سے پہلے اجازت لے، اور اگر میزبان اسے رکنے کی تاکید کرے تو کچھ وقت اور رکے اور میزبان کی خواہش کا احترام کرے۔
18. جب باہر نکلے تو بلند آواز میں اعلان کرے تاکہ میزبان روانگی کے لیے تیار ہو سکیں۔
19. گھر سے نکلتے وقت میزبان کے لیے برکت اور کشادگی کی دعا کرے۔
20.میزبان کا شکریہ ادا کرے اور ان کے کھانے اور مہمان نوازی کی تعریف کرے۔

21 - 1

Ramzan Cheena Mankera
Posted 2 weeks ago

جب نکاح خواں آئے اور میں اپنی بیوی کو طلاق دینے لگا تو میں خوش تھا کہ اب سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔ جب اس نے مجھ سے پوچھا، "کیا آپ اپنے فیصلے پر پکے ہیں؟" تو میں نے فوراً جواب دیا، "ہاں، بالکل پکا ہوں۔"

میری بیوی خاموش بیٹھی سب کچھ برداشت کر رہی تھی، مجھے وہ بہت کمزور لگ رہی تھی۔ اس کے گھر والے اس کے ساتھ تھے، لیکن وہ اتنی کمزور تھی کہ ان کی موجودگی کا احساس نہیں کر سکتی تھی۔ جب میں نے اس کی آنکھوں میں شکست کی نظر دیکھی تو مجھے خوشی ہوئی کہ میں نے اپنا حق لے لیا اور اسے دکھا دیا کہ وہی ہمیں اس حال تک لے آئی ہے۔

چند منٹ بعد میں نے اسے طلاق دے دی۔ اُس دن میں اپنے بستر پر لیٹا اور محسوس کیا کہ دنیا کی سب مشکلات غائب ہو گئی ہیں۔ میں آزاد ہو گیا، دل بھر کے کھانا کھایا۔ تین سال تک میں مسائل، سر درد اور اختلافات کا سامنا کر رہا تھا۔

"آخر کار" میں سکون میں آگیا، نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور وہ خوش تھے کہ میں نے اس سے نجات پا لی۔

میں نے اپنی زندگی دوبارہ آزادانہ طور پر جینے کا آغاز کیا۔

لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا اور چیزیں میری توقعات کے خلاف ہو گئیں۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا۔ ہر رات کے آخر میں وہ اپنے کمرے میں بند ہو جاتے اور میں اپنے کمرے میں اکیلا، کمزور اور تنہا رہ جاتا۔

میرے گھر والوں کا ساتھ کہاں گیا؟

میرے بھائی جو ہمیشہ میری بیوی کے بارے میں باتیں کرتے تھے، انہوں نے میری طرف دھیان دینا چھوڑ دیا۔ میری ماں جو یہ دکھانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ میری بیوی سے زیادہ محبت کرنے والی ہے، اس نے بھی وہی محبت اور توجہ دینا چھوڑ دی۔ وہ اپنی پرانی حالت میں واپس آ گئی۔

جو لوگ مجھے اُس پر بھڑکاتے تھے، وہ بھی کال کرنا چھوڑ چکے تھے۔ جب میں عید کی رات بیمار ہوا اور بخار چڑھ گیا، میں نے اپنے بھائی کو فون کیا، اس نے میری آواز سے نہیں پہچانا کہ میں بیمار ہوں، حالانکہ میری آواز بخار کی وجہ سے صاف نہیں تھی۔ مجھے ایک دفعہ یاد آیا کہ میری بیوی نے مجھے ایک دن باہر جاتے ہوئے فون کیا اور پوچھا، "آپ خیریت سے ہیں؟" وہ بے وجہ پریشان تھی۔ اس وقت مجھے کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور میں نے ہسپتال میں ڈرپ لگوائی تھی بغیر اسے بتائے۔

کہاں ہے وہ سکون جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا؟ کیوں کوئی میری زندگی کی خبریں جاننے کا خواہشمند نہیں رہا جیسے وہ میری بیوی کے ہوتے ہوئے تھے؟

اگر وہ سب شروع سے ہی اتنے دور رہتے تو ہمارے درمیان اتنے مسائل نہ ہوتے۔

جب میں نے کہا کہ میں اپنی بیوی کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں، تو سب نے مجھے روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے پرانے مسائل اٹھائے، اس کی غلطیاں گنوائیں، اس کے بارے میں ایسی باتیں کیں جو حقیقت میں نہیں تھیں اور میں نے ان سب پر یقین کیا۔ انہوں نے بہت نجی معاملات میں مداخلت کی، جو انہیں بالکل نہیں کرنے چاہیے تھے۔

انہوں نے میری زندگی کی تفصیلات میں اتنی مداخلت کی کہ ان کا اندر ہونا یا حتی کہ دروازے پر ہونا بھی مناسب نہیں تھا۔

مجھے یہ سب دیر سے سمجھ آیا جب میں نے اپنی زندگی میں ایک وقفہ لیا۔ جب میری بیوی دور ہو گئی، تو مجھے پتہ چلا کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ ہمارا گھر نہ گرے اور میں اس کا ہاتھ چھوڑ رہا تھا۔

وہ ہماری نجی باتوں کو چھپا رہی تھی اور میں سب کچھ دوسروں کے سامنے کھول رہا تھا۔

جب میں نے افسوس کے ساتھ اسے واپس لانے کی کوشش کی، تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس نے کہا، "میں سکون میں ہوں۔" یہ جملہ مجھے کہنا چاہیے تھا۔ میں نے بہت کوشش کی، لیکن ہر بار وہ ضد کرتی، جیسے وہ کسی محفوظ جگہ پر ہو اور وہاں سے نکلنے سے ڈرتی ہو کہ کہیں واپس نہ جا سکے۔

اس نے صاف الفاظ میں کہا، "کبھی بھی مجھے میرے حقوق کا احساس نہیں ہوا، حتی کہ تمہاری بیوی ہونے کا حق بھی میرے پاس نہیں تھا۔"

اور آخر کار، میں ہی واحد ہارا ہوا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ میں صحیح ہوں اور میرے آس پاس کے لوگ میرے خیر خواہ ہیں۔

22 - 0

Ramzan Cheena Mankera
Posted 3 weeks ago

Rule 17-A Ko khatam nahen kiya gia

17 - 3

Ramzan Cheena Mankera
Posted 3 weeks ago

رول 17اے کے تحت بیوہ بجوں اور بچیوں کی نوکری دینا ختم کر دیا گیا ہے۔

13 - 8

Ramzan Cheena Mankera
Posted 1 month ago

اسلام آباد : ملک بھر میں ہفتے سے پیر 3 روز تک بینک بند رہیں گے ، ترجمان

پیر کو نئے مالی سال کے پہلے روز بینکوں کی چھٹی ہوگی ، اسٹیٹ بینک

سٹیٹ بینک نے بینکوں کی بندش کا اعلان کردیا

سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ یکم جولائی کو تمام بینکس اپنے اکاؤنٹس کلوز کرسکیں گے۔

سٹیٹ بینک سے جاری اعلامیہ کے مطابق بینک دولت پاکستان یکم جولائی 2024 (بروز پیر) کو بینک ہالیڈے کی بنا ء پر عام لین دین کے لئے بند رہے گا

چنانچہ تمام بینک ، ترقیاتی مالی ادارے / مائیکرو فنانس بینک اُس روز عام لین دین کے لئے بند رہیں گے

تاہم بینکوں ، ترقیاتی مالی اداروں / مائیکرو فنانس بینکوں کے ملازمین حسبِ معمول دفتر حاضر ہوں گے۔

پیر کو بینکس کاعملہ کام پر آئے گا لیکن پبلک ڈیلنگ نہیں ہوگی،ترجمان

12 - 2

Ramzan Cheena Mankera
Posted 1 month ago

ملک بھر میں سوموار کو نئے مالی سال کے پہلے روز بینکوں کی چھٹی ہوگی،
اسٹیٹ بینک

20 - 0

Ramzan Cheena Mankera
Posted 1 month ago

ٹی وی کی اسکرین پر گدھوں کی ریس دکھائی جا رہی تھی اور اول آنے والے گدھا گاڑی کے مالک کو انعام دیا جا رہا تھا ، عجیب منظر تھا ترقی کو تنزلی میں بدلنے کا، یہ ہی کسر اور رہ گئی تھی کہ قوم کوگدھوں اور ان کی ریس کی طرف مائل کیا جائے، کل کے بچوں سے کتابیں چھین کر انہیں گلیوں اور چوراہوں پر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا اور نتیجہ سامنے ہے کہ آج وہ ہی بچے، ڈاکو، لٹیرے اور قاتل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

سخت مزاجی اور جہالت نے انسانیت کے منہ پر بھرپور طمانچہ مارا ہے اور یہ انہیں ورثے میں ملا ہے کہ ان کے آباؤاجداد قیام پاکستان کے بعد انہی مذموم حرکات وسکنات میں مبتلا تھے، انہوں نے اپنی اولاد پر ہرگز توجہ نہیں دی ،اس کی وجہ وہ خود شعور سے نا آشنا تھے، اس طرح وہ کرائے کے قاتل بھی بن گئے اور خود بھی یہ کار خیر انجام دینے کے لیے خود کفیل ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا اور یہ سرٹیفکیٹ دینے والے بھی عام نہیں خاص لوگ ہیں جن کی نسل در اصل غلامی کرتے آئے ہیں۔

ان کی مہربانی سے ان کی اولادیں شقی القلب بن چکی ہیں ، بے بس انسانوں پر ظلم ڈھاتے ڈھاتے ان کا دل بھرگیا تو ان ملزمان و مجرمان نے دل لگی کے لیے جانوروں کی طرف رخ کیا،گدھے اور اونٹنی کے واقعات نے دل چیر کر رکھ دیا ہے ، ایسے مواقعوں پر مجھے مبلغ دین اور مساجد کے خطیب دوسرے علمائے کرام یاد آجاتے ہیں، کبھی کبھی تویوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے فرائض سے غافل ہوگئے ہیں، جبکہ جہالت نے دور دور تک اپنا ڈیرہ ڈال لیا ہے، ظلم کی اندھیری چادر دراز ہوتی جارہی ہے، ان برائیوں کے خلاف جہاد کون کرے گا؟

’’ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ ‘‘ ہر شخص پر فرض ہے لیکن سب خاموش ہیں جو بھی غیر انسانی، غیر اخلاقی فعل سامنے آتا ہے سوائے ایک دو جماعت کے قوم کے تمام افراد خواب غفلت کی نیند میں سوئے رہتے ہیں، علماء پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ پسماندہ علاقوں میں سیمینار اور فلاحی پروگرام کریں تاکہ محلے کو لوگوں کو دین کی سمجھ آئے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کو اپنے اعمال کا حصہ بنالیں، یہ اس ہی صورت میں ممکن ہے جب اسلامی تنظیمیں ایک، ایک، محلے اور علاقوں کو تقسیم کرلیں اور یہ کام تو انہی وقتوں میں ہوجانا چاہیے تھا جب زینب جیسی معصوم بچیوں کو اغوا کیا جا رہا تھا، بچوں کی قابل شرم ویڈیوز بنا کر باہر ملکوں میں فروخت کی جارہی تھیں اور بیٹیوں کے حقوق کو غصب اور اس کے ساتھ ہی انہیں ان کے جائیداد کے حق سے محروم کیا جار ہا تھا۔

یہ سب اب بھی بلکہ زیادہ ہو رہا ہے، تب ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دیتی لیکن حکومتوں کے ساتھ اہل علم اور دوسرے اداروں کے سربراہان سب ہی خاموش ہیں کہ انہیں تو اپنا ادارہ اور اس کی ذمہ داریوں کو نبھانا ہے ملک میں آگ اور وحشیانہ رویہ جنم لے ان کی بلاسے، چونکہ وہ تو محفوظ ہیں، اللہ نے ان کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں، جہنم کا نچلا حصہ انہی کا ٹھکانہ ہوگا جو اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہیں۔

ایک طرف عید الاضحی کا موقع تھا، مسلمان قربانی کر کے سنت ابراہیمی کو ادا کر رہے تھے، تو دوسری طرف یہی سانگھڑ میں اس بے زبان جانورکی ٹانگ کاٹ رہے تھے ، اس کے ساتھ ہی ایک اور واقعہ جنم لیتا ہے وہ ہے گدھے کا، حیدرآباد کا، جہاں سفاکی کے ساتھ گدھے کی ٹانگ کلہاڑی کے وار سے توڑی اور اس کے اعضا کو شدید اذیت میں مبتلا کیا گیا،گویا انہوں نے یہ کھیل تفریحاً کھیلا تھا۔

ان حالات میں حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا واقعہ اہل دانش کے سامنے آجاتا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم موج ومستی اور عیش وعشرت کی لذتوں میں گم تھی، وہ اللہ کے نبی کی نافرمانی کرتے ہوئے اسے عار نہیں سمجھتی تھی اور حضرت صالح علیہ السلام سے معجزات کی فرمائش کرتی، ایک دن قوم کے سرداروں نے حضرت صالح علیہ السلام سے فرمائش کہ ’’اگر تم واقعی اللہ کے سچے رسول ہو تو فلاں کاتبہ پہاڑی سے ایک ایسی اونٹنی نکال دو جو دس ماہ کی تندرست اور خوبصورت ہو.

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے وہ کہنے لگے تم جادو زدہ ہو تم اور کچھ نہیں، بس ہماری ہی طرح کے آدمی ہو، اگر سچے ہو توکوئی نشانی پیش کرو۔( سورۃ الشعراء آیات 154,153) حضرت صالح علیہ السلام نے کہا، اگر میں یہ تمہار ا مطالبہ پورا کردوں تو پھر تم سب ایمان لے آؤگے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، حضرت صالح علیہ السلام اللہ کے حضور سربسجود ہوگئے اور دعا فرمائی اللہ تعالی نے حضرت صالح کی دعا کو مستجاب کر لیا، پھر اچانک ہی سامنے والی پہاڑی میں جنبش پیدا ہوئی اور چٹان دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور اس میں گابھن اونٹنی نمودار ہوئی اور اس نے ایک بچے کو جنم دیا، پوری قوم نے حیرت کے ساتھ اس معجزے کو دیکھا، لیکن قوم کے ایک سردار جندع بن عمرو اور اس کے چند ساتھیوں کے سوا کوئی بھی ایمان نہیں لایا۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے، اب تم اسے اللہ کی زمین پر چھوڑ دو،اور اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچانا ورنہ عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے، اونٹنی اور اس کا نومولود بچہ نخلستان میں چرتے رہتے قوم دودھ سے فیضیاب ہوتی، حضرت صالح علیہ السلام نے پانی پینے کے دن کو تقسیم کردیا کہ ایک دن اونٹنی کا ہے اور دوسرا تمہارا، لیکن اسے کوئی اذیت نہیں پہنچانا، نہیں تو سخت عذاب پکڑ لے گا۔(سورۃ الشعراء)

اونٹنی اور اس کے بچے کا آزادی سے گھومنا پھرنا اور مقررکردہ دن پر آ کرکنویں کا سارا پانی ایک ہی سانس پی جانا انہیں ناگوار گذرنے لگا، لہذا انہوں نے اونٹنی کو مارنے کا منصوبہ بنایا، اس پر عمل کرنے کے لیے قوم کے سرداروں نے ایک خوبصورت عورت کا انتخاب کیا اور اس عورت نے علاقے کے اوباش دو نوجوانوں کو اپنی حسین وجمیل بیٹیوں سے شادی کے عوض اونٹنی کو جان سے مارنے پر راضی کر لیا، مصرع نے کمان سیدھی کی اور اونٹنی کو نشانہ بنایا، جو اس کی پنڈلی میں پیوست ہوگیا۔

قدار بن سالف آگے بڑھا اور تلوارکے ایک بھرپور وار سے اس کی کونچیں (پچھلے پاؤں کے اوپرکا حصہ) کاٹ ڈالیں، زخمی اونٹنی زوردار چیخ مارکرگر پڑی، گرتے ہی اس نے ہیبت ناک چیخ ماری، تاکہ اس کا بچہ ان ظالموں سے کہیں دور چلاجائے ، پھر سفاک قدار نے اونٹنی کے سینے پر نیزہ مارا اور اسے ذبح کردیا، بعد میں قوم نے جشن منایا اور اب وہ حضرت صالح علیہ السلام کی جان کے دشمن ہوگئے، جب ایک رات 9 افراد تاک لگائے بیٹھے تھے کہ حضرت صالح علیہ السلام گھر سے باہر نکلیں تو وہ حملہ کر دیں، اس ہی دوران پہاڑ سے بڑے بڑے پتھر ان پرگرے اور وہ سب ہلاک ہوگئے۔

لیکن اس گمراہ قوم کو بڑے بڑے معجزات دیکھنے کے بعد بھی عقل نہ آئی اور اس ہی طرح عیش وطرب میں مبتلا رہے اور حضرت صالح علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ’’ اے صالح، جس بات سے تم ہمیں ڈراتے تھے وہ عذاب تو اب تک نہیں آیا ، اگر تم اللہ کے پیغمبر ہو تو عذاب کو ہم پر لے آؤ، (سورۃ الاعراف آیت 77) حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا ’’ بس تین دن کی مہلت ہے اور علامات بھی سن لو، پہلے دن تم سب کے چہر ے سخت زرد اور دوسرے دن سخت سرخ اور تیسرے دن سخت سیاہ ہوجائیں گے اور وہ تمہاری زندگیوں کا آخری دن ہوگا، ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے باوجود قوم اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہی، چوتھے دن صبح کو عذاب نے انہیں آ لیا، سخت زوردار چیخ اور زلزلے کے آنے سے وہ سب جہنم رسید ہوگئے اور عبرت کا نشان بن گئے ۔

13 - 1

Ramzan Cheena Mankera
Posted 1 month ago

معذور افراد کے لیئے روشناس پروگرام
معذور افراد کے لئے ملک بھر میں موجود میزان بینکوں میں روشناس کے نام سے تین ماہ کا انٹرن شپ پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جس میں ماہانہ 15000 روپے وظیفہ اور 5000 روپے کرایہ آمد ورفت دیا جائے گا ۔ جس امیدوار کی عمر 35 سال سے کم ہو اور کم از کم تعلیم 14 سالہ (B.A یا B.S وغیرہ) ہو وہ اہل ھے ۔ عمر میں مزید 2 سال کی گنجائش ان افراد کے لئے ہے جو حافظ قرآن ہوں یا جنہوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے منظور شدہ بورڈ سے درس نظامی یا شہادت العالمیہ کی ڈگری لی ھو ۔
قریبی میزان بینکوں سے یا دیئے گئے ویب لنک پر رابطہ کریں۔ درخواست دینے کی آخری تاریخ 7 جولائی 2024 ہے ۔

17 - 1

Ramzan Cheena Mankera
Posted 1 month ago

پیف پیما ٹیچرز کی تنخوا مزدور کے برابر کر دی گئی ہے ۔ لہٰذا تمام ٹیچرز 37 ہزار روپے سے کم کوئی نہ لے
اگر کوئی ہیڈ /پرنسپل آپکو 37 ہزار روپے سے کم دیتا ہے تو اسکول کا نام اور اسکے ہیڈ کا نام بتا کر شکایت درج کرا دیں یا سٹیزن پورٹل پر شکایت کریں
آپکو پورا پورا حق دیا جائے گا
ہیلپ لائن نمبر
03158334456
OR
051-9000111
شکریہ رانا سکندر حیات
وزیر تعلیم
Copy###paste
Share it all ...

28 - 3