Channel Avatar

Bazme Rasheed @UCK9soIso1rU8uGhJ_6JvbXQ@youtube.com

17K subscribers - no pronouns :c

A source of moral based video and creative productions, Isla


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Bazme Rasheed
Posted 1 week ago

نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جا رہی ہے کہ مدرسہ مظاہر علوم وقف سہارنپور کے ناظم اعلی
حضرت مولانا محمد سعیدی جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر الحسین صاحب رحمت اللہ علیہ کا انتقال ہو چکا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت والا علاج کے سلسلے میں دہلی کے پنت اسپتال میں زیرعلاج تھے
دوران آپریشن روح پرواز کرگئی
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے آمین اللھم آمین یارب العالمین ۔
07/ذو الحجہ 1446 ھ مطابق 04 جون 2025ء بہ روز بدھ
مسعود احمد مظاہری فلاحی سہارن پوری ۔

61 - 0

Bazme Rasheed
Posted 1 month ago

ابھی ابھی حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کا انتقال ہو گیا انا للہ وانا الیہ راجعون

81 - 4

Bazme Rasheed
Posted 1 month ago

بڑی غمناک خبر

مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے شیخ الحدیث و ناظم حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب کا ابھی ابھی انتقال ہوگیا ہے انا للہ وانا الیہ را جعون
نماز جنازہ و تدفین کا اعلان بعد میں کیا جائے گا

20 - 3

Bazme Rasheed
Posted 1 month ago

بچوں کے دل کی بات جاننا چاہتے ہیں؟ یہ پانچ کہانیاں آزمائیں!

ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر والدین چاہیں تو کہانیوں کے ذریعے اپنے بچوں کے دل کی باتیں جان سکتے ہیں — ان کے جذبات، خوف، اور وہ رشتے جن سے وہ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

اکثر بچوں کا ایک فطری جھکاؤ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن والدین اگر یہ پوچھ بیٹھیں کہ "تمہیں امی زیادہ اچھی لگتی ہیں یا ابو؟" تو یہ سوال نہ صرف بچے کو الجھن میں ڈال دیتا ہے بلکہ اس کا اعتماد بھی متاثر کر سکتا ہے۔

اسی لیے چائلڈ سائیکالوجسٹ نے پانچ دلچسپ اور نرم طریقے بتائے ہیں، جنہیں کہانیوں کے انداز میں پیش کر کے آپ اپنے بچے کے دل کے راز جان سکتے ہیں — بغیر سوالوں کی بوچھاڑ کیے۔

1. پرندوں کی کہانی

اپنے بچے کو ایک کہانی سنائیں: ایک درخت پر پرندوں کا گھونسلہ تھا — ماں، باپ اور ایک ننھا پرندہ۔ ایک رات تیز آندھی آئی، اور گھونسلہ نیچے گر گیا۔ باپ پرندہ ایک درخت پر جا بیٹھا، ماں پرندہ دوسرے درخت پر۔
اب اپنے بچے سے پوچھیں: "ننھا پرندہ کہاں گیا ہوگا؟"

اگر بچہ کہے: "باپ کے پاس"، تو اس کا مطلب ہے وہ اپنے والد سے زیادہ جڑا ہوا ہے۔ اگر کہے: "ماں کے پاس"، تو وہ ماں کو اپنے تحفظ کی جگہ سمجھتا ہے۔

2. ڈرنے والے بچے کی کہانی

اسے بتائیں کہ ایک بچہ ہے جو اکثر روتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ بہت ڈرتا ہے۔ پھر اس سے پوچھیں:
"تمہیں کیا لگتا ہے، وہ بچہ کس سے ڈرتا ہوگا؟"

بچے کا جواب اس کے اندر چھپے خوف، اور ان افراد کے بارے میں بتا سکتا ہے جن کی موجودگی اسے خوفزدہ کرتی ہے۔

3. دور جانے والے شخص کی کہانی

کہانی سنائیں کہ ایک شخص ہے جو بہت دور سفر پر جانے والا ہے — اتنا دور کہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ پھر بچے سے پوچھیں:
"تمہارے خیال میں وہ کون ہو سکتا ہے؟"

اگر بچہ کسی خاص فرد کا نام لیتا ہے، تو یہ اس کی دوری کی خواہش یا ناراضی کی علامت ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ کہے "میں جا رہا ہوں"، تو یہ خود سے نفرت یا مایوسی کی علامت ہو سکتی ہے، جو خاص توجہ کی متقاضی ہے۔

4. نئی خبر کی کہانی

بتائیں کہ ایک بچہ اسکول سے گھر آیا، اور اس کی ماں نے کہا:
"میرے پاس تمہارے لیے ایک زبردست خبر ہے!"
پھر بچے سے پوچھیں: "تمہیں کیا لگتا ہے وہ خبر کیا ہوگی؟"

یہ سوال آپ کو بچے کی امیدوں، خواہشات اور کچھ چھپے ہوئے ڈر تک لے جا سکتا ہے۔

5. خواب والی کہانی

کہیں کہ ایک بچہ رات کو اٹھا اور اپنی ماں سے کہا کہ اس نے ایک خوفناک خواب دیکھا ہے۔
اب اپنے بچے سے پوچھیں: "تمہارے خیال میں اس نے کیا خواب دیکھا ہوگا؟"

یہ جواب آپ کو بچے کے ذہن میں موجود الجھنوں، تعلقات کی کمزوریوں، یا اس کے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ تعلقات کی جھلک دکھا سکتا ہے۔

آخر میں ایک اہم بات:

بچے کے کسی بھی جواب کو فوراً رد نہ کریں، اور نہ ہی اس پر ناراضی ظاہر کریں۔ اسے یہ احساس نہ دلائیں کہ آپ کسی خاص جواب کی امید رکھتے تھے۔
ان کہانیوں کا مقصد صرف ایک ہے — بچے کے اندر چھپے احساسات کو سمجھنا اور اس کے جذبات کی عزت کرنا۔

کاپی پیسٹ

14 - 0

Bazme Rasheed
Posted 2 months ago

حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی:
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو


✒️:عین الحق امینی قاسمی

مرحوم قاضی صاحب کو گذرے ہوئے کم و بیش سولہ برس ہوگئے ،گویاوہ بہت پہلے سے ہمارے بیچ نہیں ہیں ،مگر نہ ہونے کے باوجودآج بھی ان کی خوبیاں زندہ ہیں ان کی نیکیاں باقی ہیں ۔

وہ آئے کب کے گئے بھی کب کے
نظروں میں اب تک سماں رہے ہیں

یہ چل رہے ہیں وہ پھر ر ہے ہیں
یہ آر ہے ہیں وہ جار ہے ہیں

قاضی القضاۃ نائب امیر شریعت صاحب کا نام آتے ہی زباں پہ بارخدایا یہ کس کا نام آیا ۔۔۔کہ

میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے

وہ بہت اونچی شخصیت کے مالک تھے :

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا

ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا

قاضی صاحب اصلا ایک عالم دین تھے ،سن 1954 ء کے فضلاء دارالعلوم میں سے تھے، اچھے اساتذہ کی صحبت میں اچھی محنت کی تھی ،فراغت کے بعد تدریس کے لئےجامعہ رحمانی جیسی ممتاز درسگاہ اور امیر شریعت رابع حضرت مولاناسید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی جیسے مربی ملے ،بڑوں کی ماننے اور مان کر زندگی جینے کی چاہت تھی ،سنور گئے ، بعد کے دنوں میں امارت شرعیہ جیسا پلیٹ فارم ملا ،منجھ گئے،کام کرتے گئے نکھر تےگئے ،کامیابی کی راہ میں روڑے آئے ،سلیقے سے ہٹاتے گئے ،حکمت ودانائی کو ساتھ رکھ کر آگے بڑھتے رہے چمکتے گئے:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
صحیح ہے کہ پیڑ اپنے پھل سے پہچانا جاتاہے،دوست ،دوست سے پہچانا جاتا ہے اور انسان اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے ۔وہ شگفتہ مزاج تھے،جمالیات کا عنصر غالب تھا،مگر کبھی جلال بھی ایسا کہ جمال تھر تھر کانپے۔ قاضی صاحب کردار کی جن بلندیوں پر تھے ،آج ہمہ شما کے لئے اس کا تصور محال ہے ،وہ فقیہ تھے ،مجتہدتھے،شریعت اسلامیہ کے نباض تھے،فقہی کنہیات وجزئیات پر گہری نگاہ تھی، ان کی فقہی بصیرت کا دنیا ءعرب بھی قائل تھی ۔وہ فقہ حنفی کے امام تھے ، نت نئے مسائل کے حل میں وہ برصغیر کےدارالا فتاؤں کی رہنمائی کے قطعاً محتاج نہیں تھے ، وہ عموم بلویٰ کے ہونے سے بہت پہلے ہی مسائل کا حل پیش کردیا کرتے تھے ،وہ تاک جھانک کے بغیر مضبوط دلائل سے کر مسئلے کی نوعیت واضح فرمادیا کرتے تھے ،بعض لوگوں کو برا بھی لگ جاتا ،کوئی زود باز کہتا تو کوئی انفرادیت کی بات کہہ کر عموم بلوی کا شدت سے انتظار کرتا ،مگر قاضی صاحب پر کیا فرق پڑتا ہے :
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

قاضی صاحب ایسے باکمال خطیب تھے کہ جن کے لب و لہجے میں گھن گرج تو کیا ،معمولی کودا پھاند ی بھی نہیں تھی، وہ بولتے تو مانو دریا کی روانی اور خاموش ہوتے تو ساحل کے تماشائی۔میرٹھ کی انقلابی سرزمین تھی لاکھوں کا مجمع فیض عام کالج گراؤنڈ میں موجود تھا ،قاضی صاحب کی گفتگو کیاشروع ہوئی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ،گھنٹہ بھر کی گفتگو کے بعد لوگوں نے سانس لی یعنی بات جب ختم ہوئی تو لوگ آپس میں کھسر پھسر کررہے ہیں ،مطلب یہ کون تھا کس نے بکھیری تھیں مستیاں ۔
اچھے انشاء پرداز ،ادیب ،قلم کار جن کی تحریر یں سب سمجھے ،اٹھا کر کوئی پڑھ دے تو کم فہم بھی سمجھ لے ،لکھے تو لکھتا چلاجائے ،ایساقلم ،جس کا وزن سب سے اٹھ پانا مشکل ہو ،اس کے ایک ایک جملے میں معنی کی دنیا پنہاں ہو۔
اپنے وقت کا منتظم ایسا کہ امارت شرعیہ ،فقہ اکیڈمی،ملی کونسل اور دارالعلوم الاسلامیہ جیسے ادارے ساتھ رہتے ،ہر جگہ سے ہر امر پر بہت باریک نگاہ،کیا مجال کے ان کو کوئی ٹہلادے یا ان کو کوئی پٹی پڑھادے ،وہ ظاہربیں میں جتنے سادے تھے ، باطنی قوت،ان کی اسی درجہ مستحکم ،متحرک اور معاملہ فہم تھی،ان کی صرف نسبت بڑی نہیں تھی وہ خود بھی بڑے تھے۔وہ جدید قدیم کے مابین روابط کا گرجانتے تھے،انہیں قدیم سے قدیم فاصلوں کو تکلف بر طرف کرنابھی خوب آتا تھا ،اسی لیے طبقہ علماء کے لئےجتنا وہ محبوب تھے ،اس سے کہیں زیادہ اہل دانش،ان کے قدرداں ،جاں نثار اورگرویدہ تھے۔سیاسی شعور اتنا پختہ کے سیاسی ناخدا ؤں کا قافلہ ان کے درپہ سجدہ ریز ،میڈیا والے ہزار چاہیں کہ ان کے منھ سے اپنےمن کی بات اگلوا لیں ،کیا مجال کہ ان کو پھانساجائے ،ان کے رسیلے جواب نے تو کئی بار میڈیا گھرانے کو لاجواب بھی کیا ہے ،ان چینلوں کو اپنی عزت بچانی بھاری پڑرہی تھی ،مولوی نما ،ڈھیلے ڈھالے کرتے پائجامے میں سیدھا سیمپل آدمی کے انٹر ویو ز پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جسے سنجیدہ ،باذوق صاحب علم وفہم صحافی جناب ایم ودود ساجد صاحب نے مرتب کرنا شروع کیا ہے ، جس میں وقت کا درد بھی ہے اور مستقبل کا مداوا بھی ،مگر یہ چیزسب کے سمجھنے کی نہیں ،ہاں وہ خوب سمجھ پائیں گے جو تھوڑا بہت بھی سیاسی شعور اور اس سے دلچسپی رکھتے ہیں ،آزادی کے بعد سےہی ہندی مسلمانوں کے لئے سیاست ،نہ جائے رفتن نہ پائے مانند ن جیسا مسئلہ بنی رہی ہے ،اس لیے ہمیشہ اکابرین علماء نے اس چبھن کو محسوس کیا ،ہمارے قاضی صاحب نے بھی اس چبھن کو محسوس کیا ،بلکہ اس دشوار ودشنام کھائی سے نکلنے کا فارمولہ بھی دیا ،مگر کون سنتا ہے فغان درویش ، ایک طبقہ ہے جو ہمیشہ ان مولویوں کی پگڑی اچھالنے میں ہی قوم وملت کا بھلا سمجھتاہے ،اس کے مزاج میں کردار نہیں ،صرف گفتار ہی گفتار ہے ،انہیں یہ توقع ہوتی ہے کہ جو بولے وہی کنڈی کھولے ،قاضی صاحب نے دلدل سے نکلنے کا کوئی خاکہ اگرپیش کیا ہے تو وہی اس میں رنگ بھی بھر کر دیکھا ئیں ! قاضی صاحب کو اتنی فرصت کہاں تھی ،وہ تو بہت تھوڑی مدت کے لئے تشریف لائے تھے ۔ضرورت ہے کہ ہندی مسلمان اگراپنے معیار وقار کو بلند اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو انہیں فارمولہ پر آنا ہوگا کہ دلت مسلم ،برہمن واد کے خلاف متحد ہوکر سیاسی جنگ لڑیں ۔
بہر حال موجودہ وقت میں قاضی صاحب کی بڑی یاد آرہی ہے ،وہ ہوتے تو ہم اتنے منتشر بھی نہ ہوتے ،انہیں متحد کرنا خوب آتا تھا ،ہمارے انتشار واختلاف سے ایک ماں کی طرح وہ صدمے میں رہا کرتے تھے،وہ کبھی کلمہ کا واسطہ دے کر ہمیں ایک دھاگے میں پروتے تو کبھی اخلاقی پستی کے نقصان کا آئنہ دیکھا کر ہمیں سمجھا تے تھے ، ان کی رعب دار شخصیت سے ہم مان بھی جاتے تھے ، وہ یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ کی بحالی کے لئے کئی طرح سے جتن کرتے تھے۔
ملک ووطن سے محبت ان کے انگ انگ میں رچی بسی تھی ،وہ اپنے مفاد سے زیادہ ملک کی سالمیت کے لئے بے چین رہتے تھے ،وہ کہتے تھے کہ ہمارے خانگی امن سے زیادہ ملکی امن ضروری ہے ،ملک مقدم ہے اور اسی جذبے سے وہ دیگر ممالک میں وطن عزیز کی نمائندگی فرماتے تھے،انہیں علم معاشیات کا بھی گہرا علم وتجربہ تھا اس لئے بھی وہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ شکل میں دیکھنا چاہتے تھے ۔
مقام خوشی ہے کہ پیام انسانیت ٹرسٹ بہار اور بصیرت آن لائن کے اشتراک سے آئندہ فروری کی کسی تاریخ میں حضرت قاضی صاحب کی شایان شان سیمینار کا اعلان پیام انسانیت ٹرسٹ بہار کے صدر مولانا محمد ارشد فیضی قاسمی صاحب کی طرف سے کیا گیا ،خدا مشکلات کو دور کرے ،غیب سے اسباب فراہم کرے، تاکہ ان کے نفوس ونقوش کو ہم زندہ رکھیں ،ان کی یادوں سے ہم منزل کا راستہ پاتے رہیں ۔
آتی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
مہکتا ہی رہے گا تیری یادوں کا گلشن
(جاری)

24 - 2

Bazme Rasheed
Posted 3 months ago

۔



۔۔۔۔۔۔۔ *ایک خط* ۔۔۔۔۔۔۔
(ماں کے پیٹ سے ماں کے نام)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری پیاری امی جان!

السلام علیکم!

اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر عطا کرے، آمین۔

امی جان!
میں نے ایک سنسنی خیز خبر سنی ہے، جس کی وجہ سے میں بہت ڈر گئی ہوں۔ میرے ہاتھ پیر، جو ابھی پوری طرح بنے بھی نہیں، کانپ رہے ہیں۔

امی جان! امی جان!
کیا آپ مجھے کل ڈاکٹر کے ہاں لے جا کر قتل کر دو گی؟

کہہ دو امی۔۔۔
میری پیاری امی!
یہ سب جھوٹ ہے، میں نے غلط سنا ہے۔
ایک ماں بھلا اپنے پیٹ میں پل رہی چار مہینے کی بچی کو کیسے قتل کر سکتی ہے؟

امی جان!
میں جانتی ہوں کہ آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ میں ایک لڑکی ہوں۔ شاید آپ کو میری پرورش کے خرچ نے، تعلیم کے خرچ نے اور شادی کے خرچ نے فکر میں ڈال دیا ہے۔

لیکن میری امی! میری اچھی امی!
میں وعدہ کرتی ہوں، اللہ کی قسم امی، میں کبھی ضد نہیں کروں گی۔

میری آپی کا جو فراک چھوٹا ہو جائے گا نا، میں اسی کو خوشی خوشی پہنوں گی۔

عید پر بھی میں نئے کپڑے نہیں مانگوں گی، امی!
آپی کی جو پرانی کتابیں ہوں گی، میں انہی سے پڑھ لوں گی۔

امی۔۔۔ امی!
آپی کی پھٹی ہوئی چپل کو تو آپ پھینک دیتی ہوں گی نا؟
میں اسے سی کر پہنوں گی، کبھی نئی چپل نہیں مانگوں گی، امی!

میری شادی کی فکر مت کرو، امی!
میں بڑی ہو کر لوگوں کے کپڑے سی کر دوں گی۔
اپنی شادی کے لیے میں تم پر بوجھ نہیں بنوں گی۔
میری شادی کسی غریب لڑکے سے کر دینا، ایسے لڑکے سے جو جہیز نہ مانگے۔
میں اس کے ساتھ خوشی خوشی زندگی گزار دوں گی۔

میری پیاری امی!
میں تم سے زندگی کی بھیک مانگتی ہوں۔
اللہ کے واسطے، مجھے مت مارو، امی۔۔۔

امی!
ڈاکٹر بڑی بے رحمی سے مجھے زہریلی دوا دے گا۔
مجھے بہت تکلیف ہو گی، امی!

امی!
اس کا پمپ مجھے باہر نکالنے آئے گا، اور جب میں اس سے نہیں نکلوں گی، تو وہ میرے سر کو چمٹے سے پکڑ کر اس کے ٹکڑے کر دے گا۔

امی!
وہ میرے معصوم ہاتھوں کو، پیروں کو، کچے کھوپڑے کی طرح کھرچ کھرچ کر نکالے گا، امی!
مجھے اللہ کے واسطے مت مارو، امی!

مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، امی!

میری امی!
میری بھی تمنائیں ہیں۔

میں بھی چاہتی ہوں کہ
آپ کی پیشانی کو چوموں،
آپ کے ہاتھوں سے کپڑے چھین کر میں دھوؤں،
آپ کو اٹھا کر میں برتن مانجون۔

ابو میرے۔۔۔ پیارے ابو!
جب گھر آئیں تو،
تو ان سے جا کر لپٹ جاؤں۔
ان کو ایک میٹھی پپی دے کر
دن بھر کی پریشانیوں کو بھلا دوں۔

ابو جان کے کپڑے پریس کروں۔
آفس جاتے وقت
ان کے جوتے پالش کر دوں۔

اسکول کی نظمیں ان کو سناؤں۔
میری پیاری آپی کے ساتھ کھیلوں۔

میری امی! میری اچھی امی!
اللہ آپ کو بہت نوازے گا۔
مجھے مت مارو، مجھے مت مارو، امی!

میری معصوم جان
اللہ نے آپ کے ہاتھوں میں دے دی ہے۔
میں آپ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوں۔

کہہ دو، امی!
میری اچھی امی، کہہ دو!
ایک بار کہہ دو، صرف ایک بار، امی!
کہ تم اپنی لاڈلی کو قتل نہیں کرو گی۔

میری امی!
آپ کو تو معلوم ہے نا،
اللہ تعالیٰ کو ایسا کام کتنا غصہ دلاتا ہے؟

قیامت کے دن
ایسے ماں باپ سے
وہ بات بھی نہیں کرے گا،
جنھوں نے اپنی بیٹی کو قتل کیا۔۔۔

پیاری امی!
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو
ان ماں باپ کو جنت کی بشارت دی ہے
جن کے گھر بیٹیاں پیدا ہوں
اور وہ ان کو خوشی سے پالیں۔

تم مجھے نہیں مارو گی نا، امی؟
صرف ایک بار کہہ دو!

میری پیاری امی!

والسلام!

آپ کے رحم و کرم کی طالب،
آپ کی بیٹی،
جو ابھی دنیا میں نہیں آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ *محمد شکیل انجینئر* ۔۔۔۔۔۔۔

( اس کہانی "ایک خط" میں معروف شاعر جناب انتظار نعیم کی مشہور نظم " التجا " کے تصور سے استفادہ کیا گیا ہے۔ )

9 - 0

Bazme Rasheed
Posted 3 months ago

*وقف ترمیمی بل پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جنتر منتر پر مظاہرہ*

نئی دہلی: یکم مارچ 2025
10مارچ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ دہلی کے جنتر منتر پر وقف ترمیمی بل کے خلاف ایک عظیم الشان مظاہرہ کرے گا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان اور مظاہرہ کے آرگنائزر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور متعدد مسلم تنظیموں اور عامۃ المسلمین نے مختلف طریقوں سے مرکزی حکومت، اس کی حلیف جماعتوں اور بطور خاص جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پوری قوت سے اپنا یہ موقف رکھا کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ بل وقف املاک کو ہڑپ کرنے اور تباہ کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے اور اسے فوری طور پر واپس لیا جائے۔ تاہم حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب جب کہ حکومت اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے جارہی ہے، بورڈ کی مجلس عاملہ نے طے کیا ہے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے ضمیر پر دستک دینے اور اپنے احتجاج کو درج کرانے کے لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ دہلی میں پارلیمنٹ کے سامنے جنتر منتر پر 10 مارچ کو دھرنا دے گا۔ اس دھرنے میں بورڈ کی پوری قیادت، تمام دینی و ملی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی مرکزی قیادت شرکت کرے گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حزب مخالف کی تمام سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی مومنٹ سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی اس دھرنے میں شریک ہوکر اس ظلم وزیادتی کے خلاف صف آراء ہوں۔
ڈاکٹر الیاس نے بتایا کہ دلتوں، آدیباسیوں اور او بی سی کی سماجی و سیاسی قیادت اور سکھوں و عیسائیوں کے مذہبی رہنما بھی اس دھرنے میں شرکت کررہے ہیں۔ اسی طرح 7؍ مارچ کو وجے واڑہ ( آندھرا پردیش) اور پٹنہ( بہار) میں بھی اسمبلی کے سامنے مظاہرے کئے جائیں گے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس بات پر بھی اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا بھی فرقہ پرست طاقتوں کے بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو پھیلارہا ہے کہ ملک میں ملٹری اورریلوے کے بعد سب سے زیادہ املاک وقف کی ہیں، حالانکہ آندھرا اور تامل ناڈو کی مشترکہ ہندو وقف املاک اور اڑیسہ میں مندروں کی املاک وقف کی مجموعی املاک سے کہیں زیادہ ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام املاک مسلمانوں کے بزرگوں نے اپنی ذاتی املاک کو مذہبی و خیراتی کاموں کے لئے وقف کیا ہے۔ وقف قانون کے ذریعہ ان کا تحفظ ہوتا ہے اور انہیں خرد برد سے بچایا جاتا ہے۔

✍ جاری کردہ
*ڈاکٹر محمد وقار الدین لطیفی*
_آفس سکریٹری_

15 - 0

Bazme Rasheed
Posted 3 months ago

*حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ :*
حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اپنے سارے مریدین اور متعلقین کو یہ ہدایت تھی کہ جب کبھی ریلوے میں سفر کرو، اور تمہارا سامان اس مقدار سے زائد ہو جتنا ریلوے نے تمہیں مفت لیجانے کی اجازت دی ہے، تو اس صورت میں اپنے سامان کا وزن کراؤ اور زائد سامان کا کرایہ ادا کرو، پھر سفر کرو۔ خود حضرت والا کا اپنا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ریلوے میں سفر کے ارادے سے اسٹیشن پہنچے، گاڑی کے آنے کا وقت قریب تھا، آپ اپنا سامان لے کر اس دفتر میں پہنچے جہاں پر سامان کا وزن کرایا جاتا تھا اور جاکر لائن میں لگ گئے۔ اتفاق سے گاڑی میں ساتھ جانے والا گارڈ وہاں آگیا اور حضرت والا کو دیکھ کر پہچان لیا، اور پوچھا کہ حضرت آپ یہاں کیسے کھڑے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ میں سامان کا وزن کرانے آیا ہوں۔ گارڈ نے کہا کہ آپ کو سامان کا وزن کرانے کی ضرورت نہیں، آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، میں آپ کے ساتھ گاڑی میں جا رہا ہوں، آپ کو زائد سامان کا کرایہ دینے کی ضرورت نہیں۔ حضرت نے پوچھا کہ تم میرے ساتھ کہاں تک جاؤ گے ؟ گارڈ نے کہا کہ میں فلاں اسٹیشن تک جاؤں گا۔ حضرت نے پوچھا کہ اس اسٹیشن کے بعد کیا ہوگا؟ گارڈ نے کہا کہ اس اسٹیشن پر دوسرا گارڈ آئے گا، میں اس کو بتادوں گا کہ یہ حضرت کا سامان ہے، اس کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ مت کرنا۔ حضرت نے پوچھا کہ وہ گارڈ میرے ساتھ کہاں تک جائے گا؟ گارڈ نے کہا کہ وہ تو اور آگے جائے گا، اس سے پہلے ہی آپ کا اسٹیشن آجائے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں تو اور آگے جاؤں گا یعنی آخرت کی طرف جاؤں گا اور اپنی قبر میں جاؤں گا، وہاں پر کونسا گارڈ میرے ساتھ جائے گا؟ جب وہاں آخرت میں مجھ سے سوال ہوگا کہ ایک سرکاری گاڑی میں سامان کا کرایہ ادا کئے بغیر جو سفر کیا اور جو چوری کی اس کا حساب دو تو وہاں پر کونسا گارڈ میری مدد کرے گا ؟

📝 ____________ کتاب : معاملات صاف رکھیں ۔
صفحہ نمبر: ۱۱، ۱۲ مصنف : مفتی محمد تقی عثمانی صاحب

56 - 0

Bazme Rasheed
Posted 3 months ago

*غور کریں ! بزنس پارٹنر کون ہئے ؟*

چھوٹا سا بورڈ فروٹ کے ریڑھی (گاڑی) کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پر موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا : ''گھر میں کوئی نہیں ھے، میری بوڑھی ماں فالج زدہ ہے، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد انهیں کھانا اور اتنی ہی مرتبہ حاجت کرانی پڑتی ہے۔ اگر آپ کو جلدی ھے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول لیں اور پیسے کونے پر کر  ریگزین (چمڑے) کے گتے کے نیچے رکھ دیجیے . ساتھ ھی ریٹ بھی لکھے ھوۓ هیں
اور اگر آپ کے پاس پیسے نہ ہوں، تو میری طرف سے لے لینا۔ اجازت ہے!
وللہ خیرالرازقین!

میں نے ادھر اُدھر دیکھا۔ پاس پڑے ترازو میں دو کلو سیب تولے، درجن کیلے لیے، شاپر میں ڈالے۔ پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی۔ پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا۔ وہاں سو پچاس دس دس کے نوٹ پڑے تھے۔ میں نے پیسے اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا۔ ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی میری طرف متوجہ ہو، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس لئے شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا.

افطار کے بعد میں اور بھائی ادھر گئے. دیکھا اک باریش آدمی، داڑھی  آدھی کالی آدھی  سفید، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا تھا۔ مگر وه ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور  بولا : "صاحب ! پھل تو ختم ہوگیا"۔
نام پوچھا تو بتایا : خادم حسین

اسے ساتھ لے کر، ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے. چائے آئی، کہنے لگا "پچھلے تین سال سے اماں بستر پر ھے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو فالج بھی ہوگیا ہے۔ میرا کوئی بال بچہ  نہیں۔ بیوی مر گئی ہے۔ صرف میں ہوں اور میری اماں. اماں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اس لئے مجھے ہر وقت اماں کا خیال رکھنا پڑتا ھے۔

ایک دن میں نے  اماں کے پاؤں دباتے ہوۓ بڑی نرمی اور لجالت سے کہا: "اماں! تیری تیمار داری کو تو بڑا جی کرتا ہے. پر جیب  میں کچھ نہیں ہئے ۔ اور تو مجھے کمرے سے  ہلنے نہیں دیتی۔

کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے۔ تو ہی بتا میں کیا کروں؟ "

اب کیا غیب سے کھانا اترے گا ؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں اور نہ تو موسیٰ کی ماں ہے۔ کیا کروں!

یہ سن کر اماں نے ہانپتے کانپتے اٹھنے کی کوشش کی۔ میں نے  تکیہ اونچا کر کے اس کو  بٹھایا۔ ٹیک لگوائی، انھوں نے جھریوں والا چھره اٹھایا اپنے کمزور  ہاتھوں کا پیالا بنایا اور نہ جانے  رب العالمین  سے کیا بات کی۔ پهر بولی " تو ریڑھی وہیں چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا"

میں نے کہا: "اماں کیا بات کرتی ہے۔ وہاں چھوڑ آؤں گا  تو کوئی چور  اچکا  سب کچھ لے جاۓ گا۔ آج کل کون لحاظ کرتا ھے؟ بنا مالک کے کون خریدار آئے گا؟"

کہنے لگی "تو فجر کو ریڑھی پھلوں سے بھر کرچھوڑ کر آجا بس۔ زیادہ بک بک نئ کر۔ شام کو خالی لے آیا کر۔  اگر تیرا روپیہ گیا تو  یہ خالدہ ثریا الله سے پائی پائی وصول دیگی".

"ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی! صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو واپس لے جاتا ہوں۔ لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے۔ دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے ہیں۔ اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکل آتا ہے۔ کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی اور چیز! پرسوں ایک پڑھی لکھی بچی پلاؤ بنا کر رکھ گئی۔ نوٹ لکھ کر رکھ گئی : "اماں کے لیے"۔

ایک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل! اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا۔ میں گھر سے اماں کو پک pick کر لوں گا".

کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گئے کوئی جوڑا شاپنگ کرتے ہوئے گزرا تو اس نے فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا۔

روزانہ ایسا ہی کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ، معجزہ اور ناقابل یقین معاملات ہوتے رہتے ہین۔

نہ اماں مجھے ہلنے دیتی ہے اور نہ اللہ میرا رزق رکنے دیتا ہے.  نہ جانے لوگ، اللہ کے ہوتے ہوئے، رزق کے لئے کیوں پریشان ہوتے ہیں ۔

اللہ اکبر ❤️

نقل و چسپاں!

19 - 4

Bazme Rasheed
Posted 4 months ago

سنو سنو!!

اناؤنسروں کی بے اعتدالیاں

(ناصرالدین مظاہری)

ایک صاحب کے پاس نہایت ہی کمزور ، مریل قسم کا گھوڑا تھا جو نہ تو اپنے مالک کو اپنی پشت پر لاد سکتا تھا نہ ہی کسی کام کا تھا ۔ مالک نے ہر چند بیچنے کی کوشش کی مگر کسی نے نہیں خریدا۔ پریشان ہوکر اپنے احباب و متعلقین سے مشورہ کیا تو ان لوگوں نےکسی دلال سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ دلال ہی تمہارا گھوڑا فروخت کرسکتا ہے۔ اس نے دلال سے بات کی۔دلال نے پوری بات سنی، گھوڑا دیکھا اور قیمت پوچھی ،مالک نے کہا کہ میں پانچ سو روپے میں بیچنا چاہتا ہوں۔دلال نے کہا سو روپے میری اجرت رہے گی۔ مالک مان گیا ، دلال نے کہا کہ فلاں وقت اپنا گھوڑا بازار لے آنا اور ہاں جب میں گراہک سے بات کروں تو تم خاموش رہنا تمہیں تمہاری رقم مل جائے گی ، گھوڑا فروخت ہو جائے گا۔مالک نے یہ بات بھی مان لی۔

وقت مقررہ پر گھوڑا بازار پہنچایا گیا ، دلال نے اپنے خاص لب ولہجہ میں پکار لگائی کہ " لے لو لے لو براق لے لو" لوگوں نے کہا کہ ارے جناب ! یہ تو مریل قسم کا کمزور گھوڑا ہے اس کو براق کیوں کہہ رہے ہو۔دلال بولا کہ اس کے ظاہر پر مت جاؤ اس کی خوبیاں سنو ! یہ مالک کے اشاروں پر ناچتا ہے ، یہ اپنے مالک کو خطروں میں نہیں ڈالتا ہے ، خطرات کی بو سونگھ لیتا ہے، جتنا دانہ پانی مالک دیدے کھالیتا ہے ، قناعت پسندی اس کی عادت ہے ، وفا کوٹ کوٹ کر بھری ہے،جب یہ چلتا ہے تو مالک کو نشیب و فراز کے جھٹکوں سے بچاتا ہے۔چلتا ہے تو لگتا ہے ہوا کے دوش پر اڑا جارہا ہے۔

خریدار نے گھوڑے کی اتنی تعریف سنی تو خریدنے پر راضی ہوگیا ،طے شدہ قیمت دینے لگا تو مالک بول پڑا کہ رکو رکو میں اپنا گھوڑا نہیں بیچوں گا۔دلال نے حیرانی کے ساتھ پوچھا کیوں کیا ہوا؟

مالک بولا کہ مجھے اپنے گھوڑے کی خوبیوں کا پتہ ہی نہیں تھا۔

یہی حال آج کل کے جلسوں میں اناؤنسر حضرات کا ہے ہر مقرر کی شان میں ایسے ایسے القاب اور مبالغہ آمیز جملے بولتے ہیں کہ مقرر کو اپنے بارے میں خوش فہمی ہوجاتی ہے کہ اوہو مجھے اپنے کمالات کا علم ہی نہیں تھا۔

بہت سے اناؤنسر ایران توران کی باتیں کرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں جھوٹی تعریفیں کرکے خود گنہ گار ہوتے ہیں اور مجمع کو دھوکہ دیتے ہیں۔ہر مولوی مفتی ہوجاتا ہے ، ہر مفتی کو صاحب نسبت بزرگ ثابت کیا جاتا ہے، خلافتوں کی دھاک عوام کے دلوں پر بٹھائی اور جمائی جاتی ہے، زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین بناکر پیش کیا جاتا ہے یہی نہیں جہاں تک ممکن ہوتا ہے اپنے القاب استعمال کرتے ہیں کم پڑجاتے ہیں تو بریلویوں کے یہاں سے تلاش کر لاتے ہیں۔

کیا یہ شرعا جائز ہے کہ آپ ایسی بات اپنی زبان سے نکالیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے ، کیا یہ بات آپ کو زیبا دیتی ہے کہ ہزاروں کے مجمع میں جھوٹ کو رواج دیں؟ کیا اس کی گنجائش ہے کہ آپ اپنی چرب زبانی اور چکنی چپڑی باتوں سے کسی کو بھی استاذ حدیث وتفسیر بنادیں۔؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ

إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ فَاحْثُوا فِى وُجُوهِهِمُ التُّرَابَ"(ٍٍصحیح مسلم)

کہ جب تم کسی تعریف کرنے والے کو تعریف کرتا ہوا پاؤ تو اس کے چہرے پر مٹی جھونک دو۔

اور ایک جگہ فرمایا کہ تم ایک دوسرے کی تعریف اس کے منہ پر کرنے سے بچو کیونکہ اس طرح تعریف کرنا گویا اس کو ذبح کرنا ہے۔(ابن ماجہ)

اب تو سنا ہے باقاعدہ اناؤنسر حضرات کو مامور کیا جاتا ہے کہ میری تعریف میں فلاں فلاں چیزیں ضرور بتانا، میری خدمات پر روشنی ضرور ڈالنا ، اگر تم نے میری تعریف اور قصیدہ خوانی دل کھول کر کی تو میں تمہیں جگہ جگہ اناؤنسری کے مواقع فراہم کروں گا۔اور بے چارہ اناؤنسر اس "کھلاڑی" کے اس لالچ ،آفر اور پیشکش کو اپنے لئے "ترقی" کے مواقع سمجھ کر دو ہاتھ آگے بڑھ کر جھوٹی تعریف اور مبالغہ آمیزی کرکے مقرر صاحب کے نفس کو خوش کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

کیا یہ دھوکہ بازی کسی بھی طرح جائز ہے کیا یہ سسٹم بیوپار نہیں بنتا جارہا ہے؟

میں نے انڈیا اسلامک کلچر سینٹر اور جمعیۃ علمائے ہند کے بہت سے پروگراموں میں شرکت کی ہے وہاں خطیب کا بس نام اور عہدہ لے کر بلایا جاتا ہے اور یہی کافی ہے۔کیا مہتمم دارالعلوم دیوبند یا مہتمم مظاہرعلوم سہارنپور کسی مزید القاب وتعارف کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کی نسبتیں بھی بتائی جائیں اس کی خدمتیں بھی گنائی جائیں مالہ و ماعلیہ کا نقشہ کھینچا جائے۔

مقرر کا نام اور زیادہ سے زیادہ اس کا درست عہدہ یا مشغلہ بتاکر مائک کو مقرر کے حوالہ کردیا جائے۔بس

11 - 0