Channel Avatar

Mukhtasar Maloomat @UCGEZd2kAMmCKH5SEPbz9qQg@youtube.com

5.3K subscribers - no pronouns :c

Hi, This is a Short Story/Information Channel by Mukhtasar M


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Mukhtasar Maloomat
Posted 2 years ago

23 - 1

Mukhtasar Maloomat
Posted 2 years ago

مختصر معلومات تحریری سیریز EP#7
امیر کابل کا ایک فیصلہ

ضلع پشاور کے دوشر اکتی اس غرض سے کابل گئے تا کہ وہاں گوشت کی تجارت کریں ۔قلیل عرصہ میں انہوں نے دوتین ہزار روپیہ کمالیا اور اپنے وطن واپس آنے کا ارادہ کیا ۔دونوں شراکتی اپنے منافع کی رقم ساتھ لے کر اپنے وطن کی طرف چل پڑے ۔جلال آباد کی قریب پہنچ کر انہوں نے ایک نابینا گدا گر کو دیکھا ۔جوراستہ کے کنارے ایک بڑے درخت کے نیچے یہ صدا لگارہا ”افسوس گردشِ دوراں نے سب کچھ چھین لیا حتیٰ کہ آنکھوں کی نظر بھی چھین لی ۔

کیا ہی اچھا ہو اگر پھر ایک مرتبہ ہتھیلی پر روپیہ رکھنے کا موقع میسر آجائے ۔“باربار وہ گدا گریہی جملے دھرا تا تھا ۔دونوں شراکتی اس کے قریب پہنچ گے ۔اور گدا گرسے دریافت کیا بھائی ! تم زمانے کی گردش سے نالاں کیوں ہو ؟نابینا گد ا گرنے کہا میں اس علاقے میں ممتاز حیثیت کا مالک تھا ۔


میری بہت سی جائیدا د تھی ۔لیکن قسمت نے یوں پلٹا کھایا کہ میری آنکھوں کی بینائی بھی ساتھ لیتی گئی ۔

مجھے اس بات کا بہت شوق ہے کہ اس مفلسی کی حالت میں اگر اپنا نہیں تو دوسروں کا کمایا ہوا نقد روپیہ ان ہاتھوں میں لمحہ بھر کے لئے رکھ کر اپنے دل کو تسکین دے لوں ۔یہ تھا ما جرا جوگدا گرنے ان کو سنایا ۔انہوں نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے مناسب سمجھا کہ یہ ایک نابینا گدا گر ہے جائے گا کہاں ؟اپنے روپوں کی تھیلی اس کو ایک لمحہ کے لئے دینے میں کیا حرج ہے ۔
اس کے دل میں اگر یہی خواہش ہے تو وہ بھی پوری ہوجائے ۔ایک نے روپوں کی وہ تھیلی گداگر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ”لو بھائی فقیر ! اپنی تمنا پوری کرلو۔“گداگرنے تھیلی لیتے ہوئے ان کا شکریہ اداکیا ۔تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک نے کہا ۔”بھائی گدا گر! اب ہم کو ہماری روپوں کی یہ تھیلی واپس کردو ۔لیکن گداگر نے کمال سنجیدگی سے جواب دیا ۔
تھیلی ! تھیلی! کیسی تھیلی ؟واپس کیسے ؟دوسرے ساتھی نے گد اگر سے کہا ”مذاق مت کرو ۔تھیلی جلدی واپس کر دو ہمیں دورجانا ہے ۔مگر گداگر نے تھیلی واپس کرنے سے انکار کردیا ۔شراکتی حیران ہوئے کہ عجیب مصیبت میں پھنس گئے ۔گداگر نے کہا میں نے تمام عمر یہاں بیٹھے بیٹھے گزاردی ہے ۔پیسہ پیسہ جمع کیا ہے ۔تم کہا سے بد بخت ڈاکو یہاں پہنچ گئے جو میری ساری عمر کی کمائی ایسی آسانی سے چھین لینا چا ہتے ہو ۔
شراکتیوں نے جب گداگر کے یہ الفاظ سنے تو حواس باختہ ہو گئے ۔گداگر اٹھ کر چلنے لگا تو دونوں نے اپنا روپیہ اس سے زبردستی چھین لینے کی کوشش کی ۔لیکن گداگر نے زور زور سے چلانا شروع کردیا ۔ڈاکو ہیں ڈاکو ۔کوئی مدد کو پہنچے ۔پاس ہی ایک بستی تھی وہاں کے لوگ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور ہر دوشراکتیوں کوڈاکو خیال کرتے ہوئے گرفتار کرلیا ۔دونوں نے ہر چند کوشش کی کہ وہ دیہاتی ان کی بات کا اعتبار کرلیں لیکن بے سود۔
بستی کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ان ڈاکوؤں کو بادشاہ کے دربار میں حاضر کریں ۔چنانچہ دونوں کو بمعہ گداگر بادشاہ کے دربار میں حاضر کیاگیا ۔امیر المومنین عدالت کی کرسی پر متمکن تھے ۔درباری حاضرتھے ۔بادشاہ نے پہلے گداگر کا بیان سنا اور پھر ملزموں کی داستانِ مظلومی سنی ۔اور پھر حکم دیا کہ ایک کڑاہی لے آؤ ۔اور اس میں پانی ڈال کر خوب گرم کرو ۔
یہ سنتے ہی دونوں شراکتی بچارے سہم گئے ۔اس درد ناک طریقہ سے اپنی موت کا خیال کرنے لگے ۔ان کی آنکھوں میں اندھیر اچھا گیا ۔کڑاہی لائی گئی پانی ڈ ال کر خوب گرم کیا گیا اور بادشاہ کے حکم کا انتظار ہونے لگا ۔بادشاہ نے غضبناک ہو کرکہا ۔لاؤ وہ روپوں کی تھیلی کھول کر پانی میں ڈال دو ۔فوراََ تعمیل ہوئی ۔
بادشاہ نے پھر کہا کڑاہی سے سب دور ہٹ جاؤ چنانچہ سب علیحدہ ہو گئے ۔

بادشاہ مسندِ انصاف سے اٹھا اور کڑاہی کے پاس آکر گرم پانی کی سطح بہ غور دیکھ کر واپس چلا گیا ۔حکم ہوا کڑاہی کا پانی گرا کر روپیہ شراکتیوں کے حوالے کردیا جائے ۔جو تھوڑی دیر قبل اپنی موت کا انتظار کررہے تھے ۔اب خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے تھے ۔بادشاہ نے فرمایا نا بینا گداگر کو مناسب سزادی جائے ۔لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔قاضی نے جرات کرتے ہوئے فیصلہ کی تفصیل سننے کی خواہش ظاہر کی ۔
بادشاہ نے فرمایا جن دو افراد کو ملزم ٹھہرایا جارہا تھا درحقیقت وہ بالکل بے گناہ تھے ۔انہوں نے گوشت فروخت کر کے روپیہ جمع کیا تھا ۔کیونکہ گرم پانی کی سطح پر چربی کے پگھلے ہوئے ذرات ظاہر ہوئے ۔جس سے یہ ظاہر ہو ا کہ ان گوشت فروشوں کے ہاتھ کا میل ہے جو ان کے ہاتھوں پر گوشت کی چربی کی وجہ سے جمتا تھا وہ روپوں کو بھی لگ گیا ہو گا ۔اس بات کی شراکیتوں سے تحقیق کی گئی جو درست ثابت ہوئی ۔بادشاہ کے اس فیصلہ سے حاضر ینِ دربار بے حد خوش ہوئے ۔

6 - 1

Mukhtasar Maloomat
Posted 2 years ago

مختصر معلومات تحریری سیریز EP#6
ابن العربی۔۔۔۔۔۔۔
نامور مسلم صوفی فلسفی جس نے صوفیانہ اسلامی سوچ کو فلسفے کے رنگ میں رنگا وہ ابن عربی تھے۔انہوں نے 1164 بعد از مسیح میں موریشیا (Murcia)․․․․․ویلنشیا(Valencia)․․․․․․جنوب مشرقی اسپین میں جنم لیا تھا۔ جب مسلم غلبہ اپنا دم توڑ رہا تھا لیکن اہسپانوی دانش ورانہ زندگی ہنوز آب و تاب کی حامل تھی۔ اسپین کے مسلمانوں نے یونانیوں کی بہت زیادہ دانشوری اہل یورپ کو منتقل کی ،تھی اور یورپ کی تہذیب ان کے فلسفیانہ اثرات سے بھی ہمکنار ہوئی تھی۔

ابو بکر محمد ابن علی محی الدین الحتامی،الاندلسی جنہیں عام طور پر ابن عربی کہا جاتا ہے․․․․․․ان کا تعلق ایک متقی․․․․․پارسا․․․․پرہیز گار․․․․․مذہبی خاندان سے تھا اور صوفیا کرام میں دلچسپی اس خاندان کی روایت تھی۔
اس وقت سولی(Seville) اسلامی ثقافت اور اسلامی تعلیمات کا ایک غیر معمولی مرکز تھا۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اسی مقام پر حاصل کی۔

انہوں نے تیس برس تک اسی مقام پر اقامت اختیار کی اور روایتی اسلامی سائنسوں کا مطالعہ سر انجام دیا۔ کہا جاتا ہے کہ عالم نوجوانی کے دوران وہ کئی ایک گورنروں کے ”کاتب“ بھی رہے تھے ۔ابتدائی عمر میں ہی اپنی علالت کے دوران وہ ایک الہام سے لطف اندوز ہوئے جس نے ان کی زندگی کی راہیں تبدیل کر دیں اور وہ اپنی زندگی کے ابتدائی دور کو دور جہالت قرار دینے لگے۔

انہوں نے بہت زیادہ سفر طے کیا تھا اور ان میں سے ایک سفر کے دوران ان کی ملاقات ڈرامائی انداز میں فلسفی ابن رشد سے ہوئی جو ارسطو نواز فلسفی تھے ۔وہ ان کے والد کے نزدیکی دوست تھے ۔لہٰذا انہوں نے ابن عربی کا امتحان لینے کی ٹھانی کیونکہ وہ اس نوجوان کی غیر معمولی فطرت کے بارے میں سن چکے تھے جو ہنوز کا ایک لڑکا تھا۔ ابتدا میں ہی محض چند الفاظ کے تبادلے کے بعد کہا جاتا ہے کہ اس لڑکے کی صوفیانہ گہرائی نے اس بوڑھے فلسفی کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور انہوں نے کانپنا شروع کر دیا۔

1198ء میں جبکہ وہ موریشیا میں ہی مقیم تھے کہ انہیں الہام ہوا اور انہیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ اسپین کو خیر باد کہہ دیں اور مشرق کی جانب روانہ ہوں۔لہٰذا انہوں نے مشرق کا رخ کیا اور اس کے بعد کبھی اپنی آبائی سر زمین پر واپس نہ آئے۔ پہلے وہ مکہ شریف جا پہنچے۔
وہ دو برس تک مکہ شریف میں مقیم رہے۔ انہوں نے کثرت کے ساتھ طواف کیے۔ مطالعہ سر انجام دیا․․․․․․مراقبے سر انجام دیئے اور بہت سے صوفیانہ الہاموں اور خوابوں سے لطف اندوز ہوتے رہے،اور اسی مقام سے انہوں نے اپنے تحریری کاموں کا آغاز کیا۔
یہاں پر انہوں نے درج ذیل کتب تحریر کیں۔
تاج الرسائل(Tadj-Al-Rasail)
رخ القدس(Ruh-Al-Quds)
اور عظیم الفتوحات المکیہ(Al-Futuhat-Al-Makkiyya) کا آغاز کیا۔
الفتوحات المکیہ 560ابواب پر مشتمل ہے اور اسلام کی تمام تر باطنی سائنسوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے جیسا کہ ابن عربی نے انہیں سمجھا اور ان کا تجربہ کیا۔
ابن عربی کے نزدیک”فنا“کا مقصد حقیقی اور سچے علم کا حصول ہے اور ماسوائے خدا ہر چیز سے دست برداری اختیارکرنے کا نام ہے۔
اس علم کے حصول کے بعد خدا سے آشنائی پیدا ہوتی ہے اور اس کا مطلب خدا بن جانا نہیں ہے بلکہ خدا کی پہچان ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ خدا کے ساتھ ملاپ کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ خدا تک پہنچا جائے۔خدا کے ساتھ ملاقات کی جائے بلکہ اس تعلق سے آشنائی حاصل کرنے کا نام ہے جو ہمیشہ سے قائم ہے۔ انفرادی روح کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ ہے وہ خدا کے ساتھ اپنے ملاپ کے احساس کے لئے بیداری حاصل کرے۔

”یہ حقیقت کہ میں اپنے جگر یا اپنے دانتوں سے آشنا ہوں ۔یہ حقیقت اس امر کی نشاندہی نہیں کرتی کہ مجھے ان کی تلاش کے لئے اپنے آپ سے باہر نکلنا چاہیے“
ابن عربی یہ کہتے ہیں کہ:۔
”انسان کبھی خدا نہیں بن سکتا اور خدا کبھی انسان کے روپ میں جلوہ گر نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ ایک ہیں۔ اگرچہ ہم اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ محض حقیقی صوفی بزرگ ہی اس سے آشنائی حاصل کر سکتا ہے“
وحد وجود
وحد وجود کے نظریے کے حاملین یہ کہتے ہیں کہ حقیقی وجود محض خدا کا ہے اور اس کے علاوہ ہر شے کا وجود اعتباری اور موہوم ہے اور انسان اور دنیا دونوں خدا کے نور کے پر تو ہیں اور ہم ان کے خیالی وجود کو حقیقی تصور کرتے ہیں۔
وہم اور اعتبار کے ان پردوں نے ہمیں معرفت ذات سے محروم کر رکھا ہے۔ در حقیقت خدا کائنات اور کائنات خدا ہے۔لہٰذا انسان کی تمام کوششوں کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی ہستی،وجود اور خودی کو”وحدت“میں گم کرتے ہوئے اس وجود واحد کو پالے۔
ابن عربی وہ فلسفی ہیں جنہوں نے وحدت وجود کے اس نظریے کو اسلامی تصوف کا ایک لازمی حصہ قرار دیا اور وہ اسلامی ممالک میں اس نظریے کے فروغ کا باعث بنے۔

58 - 0

Mukhtasar Maloomat
Posted 2 years ago

مختصر معلومات تحریری سیریز EP#5
جلال الدین رومی ایک بہت عظیم صوفی بزرگ تھے۔انہوں نے 13ویں صدی کے آغاز میں جنم لیا تھا۔رومی کی مثنوی فلسفیانہ سوچ سے بھری ہوئی ہے۔ایک مرتبہ رومی کی ملاقات شمس تبریز سے ہوئی۔انہوں نے رومی سے پوچھا:
”علم حاصل کرنے یا سیکھنے اور عبادت کرنے کا کیا مقصد ہے؟“
رومی نے جواب دیا:
”یہ شریعت اور اس کے اصولوں کو جاننا ہے“
شمس تبریز نے جواب دیا کہ:
”نہیں․․․․مقصد وہ کچھ حاصل کرنا ہے جو جاننے کے لائق ہے“
اس کے بعد انہوں نے یہ شعر پڑھا:
علم کے مقابلے میں جہالت بہتر ہے
جو تمہیں وہ کچھ رکھتی ہے جو کچھ تم تھے
رومی بے حد حیران ہوئے،شمس تبریز کی بات ان کے دل کو لگی اور شمس تبریز کی محبت میں رہتے ہوئے رومی نے یہ محسوس کیا کہ انہیں زمین اور آسمان کے بھیدوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنی چاہیے اور روحانی روشنی کے ذریعے حصول مقصد ممکن تھا۔

اگرچہ رومی ایک کامیاب اتالیق تھے اوران کے گرد ان کے پیروکاروں اور شاگردوں کاایک ہجوم رہتا تھا اور ان میں سے بہت سے افراد مفکرین اور صوفیاء کرام اب وہ (رومی) بذات خود شمس تبریزی کے شاگرد بن چکے تھے۔
مثنوی
مثنوی رومی عظیم ترین صوفیانہ نظموں کا ایک مجموعہ ہے جس نے اسلامی دنیا کے ادب پرانمٹ اثرات مرتب کیے ہیں۔یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ بمشکل ہی کوئی دوسرا ادبی مجموعہ ایسا ہو گا جس نے مسلمانوں کو اس قدر متاثر کیا ہو گا اور عرصہ دراز تک متاثر کیا ہو گا ۔
دانش ورانہ اور ادبی حلقے گزشتہ چھ صد برسوں سے مثنوی سے تحریک حاصل کر رہے ہیں اور یہ ایک بیش قیمت ادبی مجموعہ ثابت ہوئی ہے۔
جلال الدین محمد رومی نے 1207ء بعد از مسیح میں بلخ میں جنم لیا تھا اور اناطولیہ یا روم میں مقیم ہوئے تھے۔رومی کے والد بہاؤ الدین ولید ایک قابل ذکر صوفی اور علم دین کے ماہر تھے۔منگولوں کے خطرے کے پیش نظر جن کی پیش قدمی جاری تھی بہاؤ الدین ولید نے اپنے آبائی قصبے کے خیرباد کہا۔
ان کی فیملی بھی ان کے ہمراہ تھی۔انہوں نے نیشاپور میں فرید الدین عطار سے ملاقات کی۔جنہوں نے جلال الدین کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔حج بیت اللہ ادا کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ سے سفر طے کرتے ہوئے ان کی فیملی اناطولیہ (روم)جا پہنچی اور یہی وجہ ہے کہ رومی مولانا کا لقب ٹھہرا تھا۔یہ وہ علاقہ تھا جو ترک سلجوق سلطان علاؤ الدین کے زیر حکومت خوشحالی سے دو چار تھا۔
جلال الدین نے شادی کی اور 1226ء میں ان کے پہلے بیٹے ولید نے جنم لیا۔معمر بہاؤ الدین کو یہ دعوت دی گئی کہ وہ اناطولیہ کے سلجوقوں کے دارالحکومت میں شہر کے بہت سے علم دین کے کالجوں میں سے ایک کالج میں پڑھائیں۔ان کی وفات کے بعد جلال الدین نے ان کی جگہ اسی کالج میں پڑھانے کے فرائض سر انجام دیئے۔
انہوں نے غزنہ کے حکیم سنائی کی شاعری کا مطالعہ کیا تھا۔
اس شاعری میں بھی صوفیانہ ہدایات پیش کی گئی تھیں۔علاؤ الدین کی وفات کے بعد 1236ء میں جب منگولوں نے اناطولیہ پر حملہ کیا تب اندرونی صورت حال بے حد خراب ہو چکی تھی۔مصائب کے اس دور میں جلال الدین ایک تجربے سے دوچار ہوئے جس نے انہیں صوفی شاعر میں تبدیل کردیا۔
رومی کی زندگی میں فیصلہ کن لمحہ30نومبر 1244ء کو آیا جبکہ ان کی ملاقات ایک جہاں گرد درویش تبریز کے شمس الدین سے ہوئی وہ ان کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے۔
دونوں صوفی حضرات کئی دن اور ہفتے اکٹھے گزارتے تھے اور اس دوران کچھ نہ کھاتے پیتے تھے اور نہ ہی انہیں دیگر جسمانی ضروریات محسوس ہوتی تھیں۔ان کی گفتگو جلال الدین کو صوفیانہ محبت کی گہرائیوں میں لے گئی۔کچھ دیر بعد شمس تبریزی غائب ہو چکے تھے(غالباً رومی کے کسی رشتہ دار نے حسد کی بنا پر انہیں ہلاک کر دیا تھا)اور ان کی جدائی میں مولانا رومی ایک شاعر کے روپ میں داخل ہوگئے جو ان کی محبت کے گیت گاتے تھے۔
مولانا رومی سے بڑھ کر کوئی بھی صوفی شاعر مشرق کے مسلمانوں اور مغرب کے عیسائیوں پر اثر انداز نہ ہوا تھا۔ان کے فارسی کاموں سے اسلامی صوفیانہ سوچ کا اظہار ہوتا ہے اور ان کی طویل صوفیانہ نظم․․․․․․․مثنوی (روحانی شاعری)کو 15ویں صدی کے عظیم شاعر جامی نے فارسی زبان میں قرآن قرار دیا۔ان کی مثنوی نے مسلم صوفیانہ سوچ اور ادب کو بے حد متاثر کیا۔

مولانا جلال الدین رومی کی تحریروں کو دو امتیازی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔منطقی شاعری جس نے شمس تبریزی کے ساتھ ملاقات کے نتیجے میں جنم لیا اور وہ دیوان شمس تبریز کہلائی اور اس میں چھ ہزار سے زائد اشعار ہیں اور نصیحت آمیز مثنوی جس میں تقریباً 26,000اشعار ہیں۔دیوان شمس تبریز ایک قابل ذکر ادب کا ایک حصہ ہے اور اس میں مصنف کے روحانی تجربات براہ راست شاعری کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں۔
شاعری ایک ایسی صوفیانہ زندگی کا اظہار کرتی ہے جس کے تحت ہر ایک قاری اپنے دل پسند آئیڈیاز اور احساسات تلاش کر سکتا ہے۔مثنوی صوفیانہ روایات کا ایک سر چشمہ ہے اور اس سے خدا کی محبت کے تجربے کی عکاسی ہوتی ہے۔مولانا روم کے کام کا موضوع ہمیشہ محبت ہی رہا ہے۔
مثنوی یہ کہتی ہے کہ انسان اپنے دل کی طہارت اور پاکی کے ذریعے اپنی ذات کا علم حاصل کر سکتا ہے اور ایمانداری․․․․․دیانت داری․․․․․ اور صداقت کو اپنا سکتا ہے دل جس قدر پاکیزہ ہو گا․․․․․صاف شفاف ہو گا اس میں سے اسی قدر زیادہ آئینے کی مانند عکس دکھائی دے گا۔

رومی کے بقول کائنات محبت کی ایک سلطنت ہے۔محبت کے مقابلہ میں قانون اوراستدلال کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔
اقبال رومی میں ایک ایسا شخص محسوس کرتے تھے جو پیغمبروں اور درویشوں کی مانند مذہبی اعتقاد کو بطور سیکنڈ ہینڈ قبول نہ کرتا تھا۔ان کے نزدیک ذاتی تجربہ منطقی دلائل سے بڑھ کر قائل کرنے والا تھا،لیکن مذہبی تجربے کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
جو لوگ اس تجربے سے دوچار نہیں ہوتے وہ اس تجربے کا ادراک کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔اقبال نے درست کہا تھا کہ:
”دندان ساز میرے دانت کی درد پر مجھ سے ہمدردی تو کر سکتا ہے لیکن وہ میرے دانت کے درد کے احساسات کو محسوس نہیں کر سکتا“
مثنوی اپنے مصنف کے اندرونی احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔وہ رومی کی بے انتہا روحانی محبت کی عکاسی کرتی ہے اور غالباً اسی میں اس کے موثر پن اور عالمگیر مقبولیت کا راز پنہاں ہے

28 - 2

Mukhtasar Maloomat
Posted 2 years ago

مختصر معلومات تحریری سیریز EP#4
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی
جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے مخصوص کردیا تھا ۔اور آپ ﷺ چاہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس کی پیشکش کی جائے ۔
جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ پیغمبر خدا ﷺ کی بیٹی ،اور اپنے زمانے کی ممتاز خواتین سے تھیں ۔جمال ظاہری ،اور روحانی و اخلاقی اقدار اپنے والدین سے ورثہ میں پایا تھا ۔رسول اللہ محمد ﷺ کی دختر ہونے کی وجہ سے آپ کی ذات اقدس ،قریش و باعظمت ،شخصیات اور دولتمند حضرات کی نگاہوں میں مرکزِ توجہ تھی ،بعض حضرات نے اپنے لیے رشتہ تک بھیجا ،مگر رسول اللہ بلکل پسند نہیں فرماتے تھے مگر اسطرح فرماتے تھے کہ ان حضرات کو پتہ چل جاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ ان سے خفا ہیں ۔

جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے مخصوص کردیا تھا ۔اور آپ ﷺ چاہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس کی پیشکش کی جائے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیشکش :-
اصحابِ پیغمبر ﷺ نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ پیغمبر خدا کا دل چاہتا ہے ۔
کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا عقد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردیں لکین حضرت علی کی طرف سے اس کی پیشکش نہیں ہو رہی تھی ۔


ایک دن جناب عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ،سعد بن معاذ وغیرہ ایک گروہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ،جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی نسبت کے لیے رسول اللہ نے کسی کی بھی درخواست منظور نہیں کی ،اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا کا شوہر منتخب کرنا اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے ۔ابھی تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جناب پیغمبر کی خدمت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے رشتہ نہیں مانگا شاید میں سمجھتا ہوں کہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس اقدام کا نہ کرنے کی وجہ ان کا تہی دست ہونا ہے ۔
میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ اللہ اور پیغمبر نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے معین کر رکھا ہے ۔
جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ ،نے جناب عمر رضی اللہ عنہ اور سعد رضی اللہ عنہ سے کہا اگر تم لوگ چاہتے ہو تو ہم مل کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں ،اور ان کے سامنے اس موضوع کو پیش کریں ،اور اگر وہ شادی کرنے کی طرف مائل ہوں اور تہیی دست کی بنیاد پر وہ شادی نہ کر رہے ہوں تو ہم ان کی مدد کریں ۔

آپ تینوں حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر آئے ،مگر انہوں نے آپ کو وہاں نہیں پایا معلوم ہو ا کے آپ ایک انصاری کے باغ میں اونٹ کے زریعہ ڈول کھینچ کر خرمے کے درختوں کو پانی دے رہے ہیں ،تینوں اصحاب حضرت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ،اور آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہیں ۔اور میرے پاس کس غرض سے آئے ہو؟
جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا علی رضی اللہ عنہ تم کمالات کے لحاظ سے ہر ایک سے بالاتر ہو ہم سب آپ کے مقام و رتبہ جو رسول اللہ ﷺ کو آپ سے ہے اس سے آگاہ ہیں ،بزرگان ،اور اشراف قریش حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی خواستگاری کے لیے جا چکے ہیں لیکن تمام لوگوں کی باتوں کو پیغمبر اکرم ﷺ نے رد فرمایا ہے ،اور یہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ہم گمان کرتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول نے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آپ کے لیئے مخصوص کیا ہے دوسرا اور کوئی بھی شخص اس سعادت پر افتخار کی صلاحیت نہیں رکھتا ،ہمیں خبر نہیں ہوسکی کہ آپ اس اقدام میں کیوں کوتاہی کر رہے ہیں ؟
حضرت رضی اللہ عنہ نے جب یہ گفتگو سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ،اور فرمایا ،اے ابو بکر رضی اللہ عنہ تم نے میرے احساسات ،اور اندرونی خواہشات کو ابھارا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے کہ میں غافل تھا ،خدا کی قسم تمام دنیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی خواستگار ہے اور میں بھی علاقہ مند ہوں جو چیز مجھے اس اقدام سے روکے ہوئے ہے وہ فقط میرا خالی ہاتھ ہونا ہے ، جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا علی رضی اللہ عنہ آپ یہ بات نہ کریں ،کیوں کہ پیغمبر خدا ﷺ کی نگاہ میں دنیا اور مال دنیا کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
میری رائے ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے آپ اس کام میں اقدام کریں ،اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کی خواستگار ی کی درخواست دیں ۔
اسلام کی بحرانی کیفیت اور مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی نے علی رضی اللہ عنہ کو اس دلی خواہش سے روک رکھا تھا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیشکش پر تھوڑا سا غور کیا اور اس معاملے کے تمام اطراف اور جوانب پر غور کیا ایک طرف آپ کا خالی ہاتھ ہونا اور اپنی اور تمام مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور عمومی گرفتاری دیکھ رہے تھے ،اور دوسری طرف یہ بھی جان چکے تھے کہ آپ کے ازدواج کا وقت آ پہنچا ہے ۔
کیوں کہ آپ کی عمر 21سال یا اس سے زیادہ ہوچکی تھی ۔انہیں اس عمر میں شادی کرنا ہی چاہیے ،اور فاطمہ رضی اللہ عنہ جیسا رشتہ بھی نہ مل سکے گا اگر یہ سنہرا وقت ہاتھ سے نکل گیا ،تو پھر اس کا تدراک نہیں کیا جا سکے گا ۔
جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیشکش نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روح کو اس طرح بیدار کردیا تھا کہ آپ کا اندرونی جزبہ محبت شعلہ ور ہوا ۔
اور آپ سے پھر اس کام کو آخر تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا جس میں آپ مشغول تھے ،آپ نے اونٹ اس کام سے علحیدہ کیا اور گھر واپس آگئے ،آپ نے غسل کیا اور ایک صاف ستھری عبا پہنی اور جوتے پہن کر جناب رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے ،پیغمبر اکرم اس وقت جناب ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے ،حضرت علی رضی اللہ عنہ جناب ام سلمہ رضی اللہ کے گھر گئے ،اور دروازہ کھٹکھٹایا ،پیغمبر اکرم نے جناب ام سلمہ رضی اللہ سے سے فرمایا کہ دروازہ کھولو ،دروازہ کھٹکھٹانے والا وہ شخص ہے جس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے ام سلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ،میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ یہ کون ہے جسے آپ نے دیکھے بغیر اس قسم کا فیصلہ ان کے حق میں کردیا ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا ۔
۔اے ام سلمہ چپ رہو یہ ایک بہادر اور شجاع انسان ہے جو میرا چچازاد بھائی ہے ،اور سب لوگوں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ھے جناب ام سلمہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور گھر کا دروازہ کھول دیا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور پیغمبر خدا کے سامنے بیٹھ گئے ،اور شرم کی وجہ سے سر نیچے کئے ہوئے تھے اور اپنے ارادے کو ظاہر نہ کر سکے ،اور تھوڑی دیر تک دونوں چپ رہے ،اور آخرالامر پیغمبر اسلام ﷺ اس سکوت کو توڑا ۔
۔۔۔۔اور فرمایا یا علی ۔۔ گویا کسی کام کے لیے میرے پاس آئے ہو،کہ جس کے اظہار کر نے سے شرم کر رہے ہو ؟ بغیر ہچکچاہٹ کے اپنی حاجت کو بیان کرو اور مطمئن ہو جاو کہ تمہاری خواہش قبول کی جائے گی ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،میں آپ کے گھر میں جوان ہوا ہوں ،اور آپ کے لطف و کرم سے ہی مستفید رہا ہوں آپ نے میری تربیت میں ماں اور باپ سے بھی زیادہ کوشش فرمائی ہے اور آپ کے وجود مبارک کی برکت سے میں نے ہدایت پائی ہے یا رسول اللہ خدا کی قسم میری دنیا و آخرت کی پونجی آپ ہیں ۔
۔اب وہ وقت آ پہنچا ہے کہ اپنے لیے کسی رفیقہ حیات کا انتخاب کروں ،اور خانہ دار زندگی کو تشکیل دوں ،تاکہ اس سے مانوس رہوں ۔اور اپنی تکالیف کو اس وجہ سے کم کرسکوں اگر آپ مصلحت دیکھیں تو اپنی دختر جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کو میرے عقد میں دے دیں تاکہ جس سے مجھے ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہو گی ۔
پیغمبر اسلام ﷺ اس قسم کی پیشکش کے منتظر تھے آپ کا چہرہ انور خوشی اور سرور سے جگمگا اٹھا اور فرمایا کے صبر کرو میں فاطمہ رضی اللہ عنہ سے اس کی اجازت لے لوں پیغمبر اکرم جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ،تم علی رضی اللہ عنہ کو بہتر جانتی ہو ،وہ خواستگار ی کے لیے آئے ہیں ۔
آیا تم اجازت دیتی ہو کہ میں تمہارا ان سے عقد کردوں ؟جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ شرم کی وجہ سے ساکت رہیں ،اور کچھ نہ بولیں ،پیغمبر خدا ﷺ نے آنجناب کے سکوت کو رضامندی کی علامت قرار دیا ،
پیغمبر ﷺ نے فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ تم جلدی سے مسجد میں جاو ،میں بھی تمہارے پیچھے آ رہا ہوں ،تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کی تقریب اور خطبئہ عقد بجا لاو ۔
علی رضی اللہ عنہ خوش و مسرور مسجد روانہ ہوگئے ،جناب عمر رضی اللہ عنہ و ابوبکر رضی اللہ عنہ سے راستے میں ملاقات ہوگی ،تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا ،اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دختر مجھ سے تزویج کردی ہے اور ابھی میرے پیچھے آ رہے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کے مراسم انجام دیں ۔
پیغمبر خدا ﷺ جب کہ آپ کا چہرہ خوشی و شادمانی سے چمک رہا تھا مسجد میں تشریف لائے ،اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا اے لوگو ،آگاہ رہو کہ جبرائیل رضی اللہ عنہ مجھ پر نازل ہوئے ہیں ،اور خداوند کریم کی طرف سے پیغام لائے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ازدواج کے مراسم عالم بالا میں فرشتوں کے حضور منقدکئے جا چکے ہیں ۔
اور حکم دیا ہے کہ زمین پر بھی یہ مراسم انجام دئے جایں ۔میں تم کو گواہ قرار دیتا ہوں ،آپ اس کے بعد بیٹھ گئے ،اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اٹھو اور خطبہ پڑھو ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ،اور فرمایا کہ میں خداوند عالم کا اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسی گواہی دیتا ہوں جو اس زات کو پسند ہو کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور ایسا درود ہو جناب محمد صلی اللہ رضی اللہ عنہ آلہ وسلم پر جو آپ کے مقام و درجہ بالاتر کردے ۔
لوگو ! میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ازدواج کو اللّٰہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے ۔اور اس کا دیا ہے میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ازدواج اللّٰہ راضی ہے ،اور اس کا حکم دیا ہے لوگو ! رسول اللہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہ کا عقد مجھ سے کردیا ہے اور میری زرہ کو بطور مہر قبول فرمایا ہے آپ ان سے پوچھ لیں اور گواہ ہوجایں ۔
مسلمانوں نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہ کا علی رضی اللہ عنہ سے کردیا ہے ؟
رسول اللہ نے جواب میں فرمایا ہاں ۔

تمام حاضرین نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ،اور کہا کہ خدا اس ازدواج کو تمہارے لیے مبارک قرار دے اور تم دونوں کے درمیان محبت اور الفت پیدا کردے ۔
حضرت زہرا رضی اللہ عنہ کا مہر :- ایک زرہ کہ جس کی قیمت 400سو یا 480یا 500 درہم تھی ۔
یمنی کتان کا ایک جوڑا ۔
ایک گسفند کی کھال رنگی ہوئی ۔

14 - 0

Mukhtasar Maloomat
Posted 2 years ago

‪@mukhtasarmaloomat‬
مختصر معلومات تحریری سیریز EP#3
شعبان المعظم استقبال رمضان کا مہینہ -
اس ماہ کی فضیلت کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں ماہ رمضان کے روزوں، تراویح اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے
اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم نفلی روزوں اور عبادات کے لیے انتہائی فضیلت والاہے۔ اس ماہ کی فضیلت کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں ماہ رمضان کے روزوں، تراویح اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے۔ رمضان المبارک کے استقبال اور عبادت کی تیاری ہی کی وجہ سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں خصوصیت سے خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے ” اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا“۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ کون ساہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شعبان کا، رمضان کی تعظیم کے لیے۔
(ترمذی) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایایعنی جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو۔ علماء کرام نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ کمزور کرتا ہے،ایسے لوگوں کو یہ حکم دیاگیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو بلکہ کھاوٴ پیو اور طاقت حاصل کرو تاکہ رمضان المبارک کے روزے قوت کے ساتھ رکھے جاسکیں اور تراویح و دیگر عبادات نشاط کے ساتھ انجام دی جاسکے ۔
جبکہ امت میں ایسے لوگ جو کہ طاقت رکھتے ہیں اور شعبان المعظم کے نفلی روزے ان کو کمزور نہیں کرتے وہ نصف شعبان کے بعد بھی نفلی روزے رکھ سکتے ہیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں”میرا ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان المبارک میں شب کو جو جاگنا ہوگا ، شعبان المعظم کی شبوں میں جاگنا اس کا نمونہ ہے اور شعبان المعظم کے نفلی روزے رمضان المبارک کے فرض روزوں کا نمونہ اور عادی بناناہے۔
اورآدھے شعبان کے بعد روزوں سے جو منع فرمایا گیا ہے یہ در حقیقت رمضان المبارک کی تیاری کے لیے فرمایا گیا ہے یعنی کھاوٴ پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاوٴ، اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے“۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی۔
میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ طیبہ کے قبرستان) بقیع میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا ” کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں“( مشکوٰة شریف )۔قبیلہ بنوکلب عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا جس کے پاس عرب کے تمام قبائل سے زیادہ بکریاں تھیں۔احادیث مبارکہ کے مطابق چونکہ اس رات میں بے شمار گنہگاروں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اور عذاب جہنم سے چھٹکارا اور نجات ملتی ہے، اس لیے عرف میں اس رات کا نام ”شب برات“ مشہور ہوگیا البتہ! حدیث شریف میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیں آیا، بلکہ” لیل النصف من شعبان“ یعنی شعبان کی درمیانی شب کہہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے مہینے کی آخری تاریخ میں خطبہ دیا اور فرمایا” اے لوگو! تم پر ایک عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر، تراویح، مغفرت باری تعالیٰ اور رمضان میں اہتمام سے کئے جانے والے خصوصی اعمال کا تذکرہ فرمایا۔ بارگاہ الٰہی میں دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بنائے اور رمضان المبارک کے استقبال و عبادات کے لئے تیاری کی توفیق عطا فرمائے جو کہ ہمارے گناہوں کی مغفرت، اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بنے ، آمین ۔

17 - 0

Mukhtasar Maloomat
Posted 2 years ago

‪@mukhtasarmaloomat‬
مختصر معلومات تحریری سیریز EP#2
شب برات کی عظمت وفضیلت -
چونکہ اس رات میں اللہ کی رحمت سے لاتعدادانسان دوزخ سے نجات اورچھٹکارا حاصل کرتے ہیں اس لیے اس رات کو شب براءت کہا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت نےاپنے محبوب کی امت کوکچھ ایسی راتیں عطاکی ہیں جواللہ کی رحمتوں ،برکتوں اور عنایتوں کی نوید سعید لے کر آتی ہیں۔شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نےکیا خوب کہا تھا کہ رحمت حق بہانہ می جوید یعنی اللہ رب العزت کی رحمت اپنے بندوں کی بخشش کے بہانے تلاش کرتی ہے۔یہ عظیم اور بابرکت راتیں اللہ کی رحمتوں کے حصول کے بہانےہی تو ہیں۔
ان بابرکت راتوں میں سے ایک رات "شب براءت "ہے۔شب براءت کا مطلب ہے نجات اور چھٹکارے کی رات ۔ چونکہ اس رات میں اللہ کی رحمت سے لاتعدادانسان دوزخ سے نجات اورچھٹکارا حاصل کرتے ہیں اس لیے اس رات کو شب براءت کہا جاتا ہے۔شب قدر کے بعد یہ رات تمام راتوں سے زیادہ بابرکت رات ہے۔امام غزالی مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ جس طرح مسلمانوں کےلیے دو عیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کے لیے بھی دو عید کی راتیں ہیں جن میں سےایک شب براءت ہےاور دوسری شب قدر۔

بہت سی احادیث مبارکہ سے اس بابرکت رات کی عظمت و ٖفضیلت واضح ہوتی ہے۔تقریباََ دس صحابہ کرام سے شب براءت کے حوالے سے احادیث مروی ہیں۔حضرت علی المرتضی ٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو اس رات میں قیام کیا کرو اور دن کو روزہ رکھا کرو۔بے شک اللہ تعالیٰ اس رات میں غروب آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک آسمان دنیا پر(اپنی شان کے لائق )نزول فرماتا ہےاور فرماتا ہے کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اسے بخش دوں،ہے کوئی رزق کا طلب گار کہ اسے رزق دوں،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے آرام دوں،ہے کوئی ایسا ،ہے کوئی ایسا۔
اللہ تعالیٰ یہ اعلان طلوع فجر تک فرماتا رہتا ہے۔(سنن ابن ماجہ، حدیث:1388)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےاس رات کے حوالےسےنبی اکرمﷺ کےمعمول کا ذکر بھی کیا ہے۔آپ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات نبی اکرمﷺکو نہ پایا تو میں آپ ﷺ کی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ ﷺ بقیع قبرستان میں ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ تم پر ظلم فرمائیں گے ؟میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا گمان تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی زوجہ کے ہاں گئےہوں گے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان دنیا پر(اپنی شان کے لائق )نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔(ترمذی،حدیث:739)
قبائل عرب میں قبیلہ بنی کلب سب سے زیادہ بکریاں پالنے کے حوالے سے مشہور تھا۔اس مقام پر قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کا ذکریہ واضح کرنے کے لیے کیا گیاکہ جس طرح قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بال گننا ناممکن ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اتنے افراد کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے جنہیں احاطۂ شمار میں لانا ناممکن ہے۔

اسی طرح نبی اکرمﷺ نے ایک مقام پر اس امر کا ذکر فرمایا کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کتنے لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے اور کون سے ایسے لوگ ہیں جو اس عظیم رات میں بھی اس کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:"میرے پاس جبرائیل ؑ آئےاور کہا کہ شعبان کی پندرھویں رات کو اللہ تعالیٰ اتنے لوگوں کو جہنم سے آزاد فرما دیتا ہے جتنے قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر مشرک ،دشمنی رکھنے والے ،قطع تعلقی کرنے والے،کپڑا (بطورتکبر)لٹکانے والے،والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا۔
"(شعب الایمان،حدیث:3837)
مندرجہ بالا حدیث میں مذکور محروم افراد کے علاوہ دیگر احادیث میں ایسے مزید افرا کا ذکر ملتاہے جو اس بابرکت رات میں بھی اللہ کی رحمتوں سے محروم رہتے ہیں۔مختلف احادیث سے پتا چلتا ہے کہ تقریباََدس قسم کے افراد ہیں جن کی اس بابرکت رات میں بھی بخشش و مغفرت نہیں ہوتی۔ان افراد میں مشرک،کینہ پرور(اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے دشمنی رکھنے والا)،عادی شرابی،عادی زانی ،کسی کو ناحق قتل کرنے والا،والدین کا نافرمان،قطع تعلقی کرنے والا،بطور تکبر کپڑالٹکانے والا اور چغلی کرنے والا شامل ہیں۔

ان تمام احادیث سے اس رات کی عظمت و ٖفضیلت عیاں ہے۔اسی طرح مختلف روایات سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ اس رات میں انسان کا نامۂ اعمال تبدیل ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰفرشتوں کو ہر شخص کےپورے سال کے معاملات صحائف کی شکل میں دے دیتا ہے ۔یہاں یہ حقیقت واضح رہے کہ ہماری تقدیر میں سب کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے ۔اس رات میں صرف ایک سال کے امور نافذ کرنے کے لیے صحائف فرشتوں کے سپرد کیے جاتے ہیں۔

21 - 0

Mukhtasar Maloomat
Posted 2 years ago

‪@mukhtasarmaloomat‬
مختصر معلومات تحریری سیریز EP#1
ولادت باسعادت مدینہ علم کا دروازہ۔مولا علی رضی اللہ عنہ -
شیروں کے شیر اللہ کے شیر مو لا علی مرتضی شیر خدا کی ولادت باسعادت ۱۳ رجب المرجب کوجمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ میں ہوئی ۔آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کعبہ شریف میں داخل ہوئیں

شیروں کے شیر اللہ کے شیر مو لا علی مرتضی شیر خدا کی ولادت باسعادت ۱۳ رجب المرجب کوجمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ میں ہوئی ۔آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کعبہ شریف میں داخل ہوئیں او ر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرمائیں کہ اومی و محافظ میرے درد کو آسان فرما دے۔اچانک ہی کعبہ کی دیوار کھل گئی۔اور وہ گویا کسی غیب قوت کے ذریعہ اندر گئیں اور دیوار بن ہو گئی۔
آپ تین دن تک اندر رہیں اور تین دن کے بعد جب باہر آئیں تو آپ کی گود میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
امام علی رضی اللہ عنہ کی کنیت
آ پ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو تراب ،ابو الحسن اور حسین تھی۔
شیر خدا کی پرورش
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کے بعد جب آپ نے آنکھ کھولی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمائی۔اور جس کی پرورش کرنے والا خود اللہ کا رسول ہو ان کی شان کتنی نرالی ہو گی۔
مولا علی رضی اللہ عنہ کے والد ماجد
آپ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ ہے اور حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کی شان اتنی بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے والد حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔
اور ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ۔اپنی پوری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت میں گزار دی ۔دشمنوں کے طعنے سہ لیے مگر اپنے بھیتجے کا ساتھ نہ چھوڑا اور اس وقت میں حق کا ساتھ دیا جب ہر طرف کفر ہی کفر تھا۔
مولا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت
امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایک ایسی نادر روزگار شخصیت ہیں جو اپنی خصوصیات اور خصائل کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔
حضرت علی علیہ الصلاة والسلام داماد مصطفی بھی ہیں اور شیر خدا بھی۔عبادت و ریاضت میں یکتا ہیں اور فصاحت و بلاغت میں بے مثال بھی۔وہ علم کی دولت سے مالا مال ہیں اور حلم آپ کی طبیعت کا خاصہ۔فاتح خیبر بھی ہیں اور شہنشاہ خطابت بھی۔آپ حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی۔سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے شوہر نامدار بھی ہیں اور حسنین کریمین کے والد بزرگوار بھی۔
آپ میں بہت سے ایسے کمالات اور خوبیاں جمع ہیں جو آپ کو دیگر تمام صحابہ کرام سے ممتاز کرتی ہیں اس لیے آپ کو مظہر العجائب والغرائب بھی کہا جاتا ہے۔امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اتنی احادیث موجود ہیں کہ شاید ہی کسی اور صحابی کی شان میں وارد ہوئی ہوں۔ شاگرد امام اعظم امام محمد فرماتے ہیں جتنی حدیثیں آپ کی فضیلت میں ہیں اتنی احادیث کسی اور صحابی کی شان میں وارد نہیں ہوئی ہوئیں ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی ہونے کا درجہ
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ہارون کی طرح اپنا بھائی قرار دیا ۔
بخاری و مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم ارشاد فرمایا تو حضرت علی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر اپنا خلیفہ بناکر کر چھوڑے جا رہے ہیں ہیں گویا حضرت علی کی خواہش تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں رہنے کے بجائے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر داد شجاعت دیتے اور اپنی شمشیر خاراشگاف سے دشمنوں کے سر قلم کرتے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جارہا ہوں جس طرح حضرت موسی حضرت ہارون کو چھوڑ کر گئے تھے فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
۔ترمذی میں حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منافق علی سے محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا۔جبکہ مشکوٰة شریف میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے علی کو برا بھلا کہا اس نے مجھے برا بھلا کہا۔

خم غدیر
تاریخ الخلفاء میں حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک کھلے میدان میں بہت سے لوگوں کو جمع کرکے پوچھا کہ میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم غدیرخم کے موقع پر میرے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھا اس مجمع میں سے کم و بیش تیس افراد کھڑے ہوئے اور انہوں نے گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا میں مولا، علی اس کا مولا۔
یااللہ جو شخص علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو شخص علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔لیکن حضرت علی کی علمی شان سب سے جداتھی۔
شہادت
حضرت امام علی رضی اللہ عنہ کو ۱۹ رمضان المبارک میں ضرب لگی اور آپ رضی اللہ عنہ نے بروز 21 رمضان المبارک کو شہادت نوش فرمائی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دس خصائل۔

حضرت عمر بن میمون رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر تھا کہ 9 افراد پر مشتمل ایک وفد آیا اور حضرت ابن عباس سے الگ ہوکر کچھ باتیں کیں۔ کی جب وہ چلے گئے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس شخص کی غیبت کر رہے تھے جس کو دس خصوصیات حاصل ہے ۔پھر اپ نے وہ خصوصیات بیان فرمائیں۔

فرمایا کہ قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لیے یے جھنڈا دیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں یہ پرچم اس شخص کو دوں گا ۔جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالی کبھی بھی اس کو شرمندہ نہیں فرمائے گا۔
2 ۔ایک غزوہ سے واپسی پر سورة توبہ کی برات کی آیات نازل ہوئیں۔ تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ آیات طیبات دے کر روانہ فرمایا ساتھ ہی حضرت علی کو ان کے پیچھے روانہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ اعلان برات کے ساتھ فقط وہ شخص جائیگا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

3۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا امام حسن،سیدنا امام حسین،سیدہ فاطمة الزہرا،اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان پر چادر پھیلائی اور یہ دعا فرمائی یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر طرح کی ناپاکی دور فرما دے اور خوب پاک فرما دے۔
4۔حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد اسلام لائے۔

5۔حضرت علی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ شب ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اوڑھ کر آپ کے بستر پر سو گئے تھے۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پکارا یا رسول اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ تشریف لے گئے ہیں۔یوں ساری رات بستر رسالت پر آرام فرما رہے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پاک تشریف لے گئے۔
۔
6 ۔غزوہ تبوک کی طرف روانگی کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو موسیٰ کے بھائی ہارون کی مانند اپنا بھائی قرار دیا۔
7۔ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام حجروں کے دروازے بند کردیئے گئے لیکن حضرت علی کا دروازہ کھلا رہا۔
8۔حضرت علی واحد صحابی ہیں جن کے متعلق سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی اس کا علی ولی۔

9 ۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ نے ہمیں قرآن میں خبر دی کہ وہ درخت تلے بیعت کرنے والوں سے راضی ہوگیا۔۔
10۔فرمایا کہ حضرت علی اصحاب بدر میں سے تھے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا یا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالی نے اہل بدر کے متعلق فرما دیا کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہاری مغفرت کردے۔(السنن الکبری النسائی۔حدیث نمبر 8355)۔

41 - 3