in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c
ALHUMDULILLAH FOR EVERYTHING & THANKS ALL OF YOU.......CREDIT GOES ALL OF YOU
ONCE AGAIN THANKS TO ALLAH THANKS ALL OF YOU
141 - 10
ملک کی راجدھانی میں انتخابات سر پر ہیں.. سیاسی مبصرین اپنے اپنے اعتبار سے خوب لکھ اور بول رہے ہیں. ایک سمیع اللہ خان صاحب ہیں.. ان کا قلم ہمیشہ جارحانہ اسلوب میں چلتا ہے، کسی کے خلاف لکھتے ہیں تو اس انداز میں لکھتے ہیں گویا سامنے والے کو مار ہی ڈالیں گے. ان کی جذباتی تحریریں مجھے کبھی نہیں بھائیں. ملکی اور عالمی حالات پر ان کے بے سر پیر کے تجزیاتی مضامین اکثر سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں جنہیں دیکھ کر بس افسوس کرنے کو دل چاہتا ہے . فی الحال ان کا ایک مضمون سوشل میڈیا پر نظر آ رہا ہے جس میں انہوں نے بزعم خویش دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا آپریشن کیا ہے اور ملت کو ان کے حقیقی چہرے سے آشنا کیا ہے. ان کے اعتبار سے کیجریوال سنگھی ذہنیت کا آدمی ہے کیونکہ وہ انا اندولن کی پیداوار ہے. ہم ان کے اس تجزیے کی نفی نہیں کرتے، ممکن ہے ہے ان کی منطق کسی حد تک صحیح ہو (انا ہزارے کے بارے میں تو یہ تجزیہ پوری طرح درست بھی ہے اور اسے کسی قسم کی دلیل بھی ضرورت نہیں ہے) فی الحال الیکشن دہلی میں ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہاں کے زمینی حالات کیا کہتے ہیں.. زمینی حالات یہ بتاتے ہیں کہ کانگریس کا وجود وہاں اب ختم کے قریب ہے (ممکن ہے چند علاقوں میں کانگریس کچھ بہتر ہو لیکن عمومی صورتحال یہی ہے) اور لڑائی براہ راست بی جے پی اور کیجریوال کے درمیان ہے. کیجریوال اندر سے کیسا انسان ہے یہ تو شاید کوئی نہیں جانتا لیکن اس کا دور حکومت اس پر شاہد ہے کہ وہ کھل کر فرقہ وارانہ سیاست نہیں کرتا، اس کے دور حکومت میں دہلی کا مسلمان اس خوف و دہشت کے سائے میں زندگی نہیں گزارتا جس میں ملک کے بعض دیگر صوبوں کا مسلمان گزارتا ہے. کیجریوال نے ڈیولپمنٹ پر بھی کافی کام کیا ہے اس کا انکار کوئی نامعقول انسان ہی کر سکتا ہے ، بجلی، پانی، علاج وغيرہ کے سلسلے میں اس نے دہلی کو بہت ترقی اور سہولیات دی ہیں . اس کے دور میں دہلی میں فسادات ہوئے، بلڈوزر بھی چلے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دہلی کی پولیس وہاں کی صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں ہوتی، دوسرے ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عوام کی ذہنیت بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی.. اب ملک کا ایک بڑا طبقہ مسلمانوں کی تکلیفوں پر نہ صرف خوش ہوتا ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر وہ الیکشن میں ووٹنگ بھی کرتا ہے.. اس لیے دہلی انتخابات کے معاملے میں ہمیں جذباتی رخ نہ اختیار کر کے مصلحت کا رویہ اپنانا چاہیے. ہمیں شریعت کے اخف الضررین کا اصول پیشہ یاد رکھنا چاہیے.. ہم سب جانتے ہیں سیاست کے گلیارے میں کوئی کسی کا سگا نہیں ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس کھونے کو زیادہ کچھ ہے نہیں. وہ تو بس یہی چاہتے ہیں کہ وہ سکون سے زندگی گزاریں، ان کی جان و مال، ان کے گھر بار، ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں بس. باقی نوٹ پر گاندھی جی کی تصویر چھپتی ہے یا کسی دیوی دیوتا کی مسلمانوں کے ملی مفاد پر اس سے کچھ خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے.. ملک کی سیاست اب کروٹ بدل چکی ہے.. مرکز میں کانگریس آ بھی گئی تو سافٹ ہندوتوا سے وہ بھی پیچھا نہیں چھڑا سکتی.. ملک کا سیکولر تانا بانا ایثار و قربانی کی ایک طویل جدوجہد سے تیار ہوا تھا لیکن اب یہ تانا بانا کافی حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے.. فرقہ پرستی کا عفریت اب ملک کے سیکولر طبقے کے اندر بھی سما چکا ہے.. حیدرآباد کے صدر صاحب بہت اچھی تقریر کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں، پارلیمنٹ میں ان کی طرح کھل کر مسلمانوں کے حق میں بولنے والا کوئی نہیں یہ بھی برحق لیکن یہ بھی یاد رہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا کون ہے. چند ایک ان کی پارٹی کے لوگ کسی ودھان سبھا میں بیٹھ بھی گئے تو وہ ملی مفاد میں کوئی عملی اقدام نہیں کر پائیں گے. دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوریت کے نام پر آمریت ہی چل رہی ہے. جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا فارمولا پر جگہ لاگو ہے. اس لیے جسم کی آنکھیں کھولنے کے ساتھ دل اور دماغ کو بھی بیدار رکھیے.. سمیع اللہ خان جیسے لوگ صرف جذبات بھڑکا سکتے ہیں. جن کے بچے سلاخوں کے پیچھے ہیں، جن کے آشیانے لٹ چکے ہیں، جنہوں نے ظلم و ستم کی چکی پیسی ہے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے. ہمیں وہ راستہ چننا ہے جس پر چل کر ہمیں تحفظ حاصل ہو نہ کہ خوف و ہراس. سیاست میں ہم کسی کی ضرورت ہیں یہی بڑی بات ہے، اپنی قیمت نہ گھٹائیں، ہماری اجتماعیت جہاں اور جس انداز میں بھی فرقہ پرستی کے سیلاب کو روک سکتی ہے ہم اسے بروئے کار لائیں. جذبات میں بہیں گے تو پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا.
(عبدالغفار سلفی، بنارس)
75 - 1
جمعیت و جماعت کو لے کر اگر کوئی مسئلہ یا اختلاف ہے بھی تو اسے بازاری مسئلہ نہیں بنانا چاہیے. ہر بات ہر جگہ کہنے کی نہیں ہوتی. اس قسم کے مسائل خطاب عام میں پیش کرنا یا سوشل میڈیا پر چھیڑنا دونوں انتہائی غلط اور خطرناک ہے. عوام میں ہر قسم کے لوگ ہیں. کمیاں اور کوتاہیاں کہاں نہیں ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جمعیت ہمارا تنظیمی ڈھانچہ ہے، ہمارے بزرگوں نے بڑی محنتوں اور قربانیوں سے یہ پلیٹ فارم بنایا ہے. ہندوستان کے کروڑوں لوگوں تک توحید و سنت کی دعوت اسی پلیٹ فارم سے پہنچی ہے . جمعیت کا اصل مقصد ہی ہمیں منظم کرنا اور ڈسپلن میں لانا ہے مگر افسوس آج سب سے زیادہ بدنظمی بلکہ اس سے بڑھ کر عداوت، دشمنی، سیاست بھی اسی کو بنیاد بنا کر کی جاتی ہے. دوسری طرف ہمارے دعاۃ و مبلغین ہمارا سرمایہ ہیں، ہمیں ان سے کام لینا ہے. کوئی نامناسب بات کسی نے کہہ بھی دی تو اسے بنیاد بنا کر پورا آپریشن کرنے لگنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے. یہ دور ایسے بھی علم کے قحط کا دور ہے. عوام کی ایک بڑی تعداد علماء سے کٹ کر غیر معتبر بلکہ گمراہ کن شخصیات کو اپنا آئیڈیل بنانے لگی ہے، سوشل میڈیا کی مقبولیت کے دھوکے میں دوا کے نام پر زہر بک رہا ہے اور لوگوں کی عاقبت برباد کرنے کی منظم سازشیں رچی جا رہی ہیں. ایسے میں ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر کچھ لکھنا بولنا چاہیے. اختلافات کے دائرے کو سمیٹنے کی کوشش ہونی چاہیے. کچھ نٹھلے لوگوں کا تو کام ہی یہی ہے کہ علماء پر زبان طعن دراز ہو اور وہ مزے لیں، دعاۃ و مبلغین پر اتہامات کی بارش ہو اور ان کی چاندی ہو. ایسی منفی سوچ کے حاملین سوشل میڈیا پر تیار بیٹھے ہیں. اللہ کے واسطے انہیں مسالہ مہیا نہ کریں. اللہ ہم سب کو شرور و فتن سے محفوظ رکھے. آمین
(عبدالغفار سلفی، بنارس)
231 - 2
This channel is official YouTube channel of Shaikh Abdul Gaffar Salafi hafizullah. We will upload his lectures, answers, short clip etc on this channel. You can contact regarding channel on abdulghaffarofficial.0.2@gmail.com
YEH HAMARA OFFICIAL CHANNEL HAI. IS CHANNEL KA MAQSAD QURAN AUR HADEES KA ILM AAM KRNA HAI.
NOTE: ISKE ELAWA HAMARA KOI DOSRA CHANNEL NHI HAI.