Channel Avatar

Nazim ullah Baig @UC3GbSye6tvOVM9DoCvjuuxQ@youtube.com

37K subscribers - no pronouns :c

More from this channel (soon)


Welcoem to posts!!

in the future - u will be able to do some more stuff here,,,!! like pat catgirl- i mean um yeah... for now u can only see others's posts :c

Nazim ullah Baig
Posted 1 week ago

Discovery Pakistan

1 - 1

Nazim ullah Baig
Posted 2 weeks ago

one of my best friend and Pakistan top mountaineer Sirbaz Khan is on his way to Tibet to climb Shishapangma to completed 14x8000m peaks. Adventure Pakistan wish him best of luck and safe climb.

8 - 0

Nazim ullah Baig
Posted 1 month ago

Astore Valley

2 - 0

Nazim ullah Baig
Posted 1 month ago

فوٹوگرافی نظیم اللہ بیگ : دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ۔۔۔ نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن پاکستان کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے شمالی علاقہ جات اپنی خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3000 مربع کلومیٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گذرتے۔ یہی برف جب پگھلتی ہے توتو دریائے سندھ کے کل پانی کا 5فی صد حصہ ہوتی ہے۔ ان پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے صد پارہ جھیل پر ایک بند زیر تعمیر ہے۔
دیو سائی کا لفظ گلگت بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان کا لفظ ہے جو اصل میں دیو سَے (deo sai) تھا بعد میں اردو لکھائی سے نا بلد لوگوں نے دیو سے سے دیو سائی بنا دیا، دیو سے مراد دیوتا یا جن ہے اور سے (sai) سے مراد آبادی یا سرزمین کی ہے، پس یوں دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے۔ جبکہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد میں موجود پھولوں کی وجہ سے بھئیر سر یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے ہے اور دوسرا استور سے۔ اسکردو سے دیوسائی 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسکردو جانے کے لیے اسلا م آباد سے روزانہ جہاز جاتا ہے جو محض 40منٹ میں اسکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائیٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لیے سیاح عموماً زمینی راستے سے اسکردو جانا پسند کرتے ہیں یہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم پرراولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس سے ہوتا ہوا بونجی کے مقام پر شاہراہ اسکردو سے جا ملتا ہے یہ راستہ تقریباً 24 گھنٹے میں طے ہوتا ہے مگر راستے کی خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دے تی۔ دوسرے رستے سے دیوسائی پہنچنے کے لیے راولپنڈی کے پیر ودہائی اڈے سے استور جانے والی کوچ میں سوار ہوجائیں یہ کوچ تالیچی کے مقام سے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور روڈ پر آجاتی ہے اور مزید 45 کلومیٹر کے بعد استور آجاتا ہے۔ یہ سفر تقریباً 22 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔ تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لیے اسی شہر سے گذرتے تھے۔ یہاں رہائش کے لیے مناسب ہوٹل اور ایک مختصر سا بازار بھی ہے جہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ رات قیام کے بعد آگے کا سفر جیپ میں طے ہوگا جو استور میں بآسانی دستیاب ہیں۔ جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدئی کا گاؤں ہے جہاں سے ایک رستہ بوبن کی طرف جاتا نظر آتا ہے جو ایک خوبصورت سیا حتی مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے۔ یہ ایک مختصر سا گاؤں ہے جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں کیوں کہ یہیں سے ایک رستہ کارگل کی طرف نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کے حدود شروع ہوتی ہیں۔ چیک پوسٹ پر20 روپے فی کس کے حساب سے فیس دے نی پڑتی ہے جو دیوسائی میں جانوروں کے بقا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ دیوسائی کو1993میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا جس کی رو سے یہاں شکار پر مکمل پابندی ہے تاکہ یہاں پائے جانے والے جانوروں خصوصاً بھورے ریچھ( گُورَو اِچ) کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس وقت دیوسائی میں محض 30 ریچھ موجود ہیں کبھی یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ریچھ گھوما کرتے تھے مگر انسانی لالچ نے اس خوبصورت اور پاکستان کے سب سے بڑے ہمہ خور جانور ( گوشت و سبزی خور) کا شکار کرکے معدومیت سے دوچار کر دیا۔ یہ ریچھ سال کے چھہ مہینے سردیوں میں نومبر تا اپریل غاروں میں سوتا رہتا ہے اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب برفیں پگھلتی ہیں تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ (خرگوش کی ایک نسل جسے مقامی زبان میں ترُشونِہ کہتے ہیں) تبتی بھیڑیا ،لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والا عقاب اور فیلکن قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کے قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 مقامی لوگ مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
چیک پوسٹ سے آگے دیوسائی کا اصل حسن آشکار ہو تا ہے۔ سرسبز ڈھلوان اور اور ان کے پس منظر میں، چرتے ہوئے خوبصورت یاک اور لمبے بال والے بکرے بہت خوبصورت نظر آتے ہیں۔ دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں مگر جیسے ہی جیپ ان کے نزدیک پہنچتی ہے یہ اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ دیوسائی چاروں طرف سے چھوٹی چھوٹی برف پوش پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کی چمک سے یہ پہاڑ سونے کے نظر آتے ہیں، مگر یہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ہیں ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی سے یہ محض چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔ پورے دیوسائی میں بلندی کے باعث ایک بھی درخت نہیں ہے اس لیے پرندے اپنا گھونسلا زمین پر ہی بناتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں دیوسائی کا بلند ترین مقام چھچھور پاس آتا ہے چھچھور پاس کی بلندی سے نیچے نظر دوڑائیں تو گھاس کا ایک وسیع میدان نظر آئے گا جس کے بیچوں بیچ ا یک خوبصورت دریا بل کھاتا ہوا گذر رہا ہے اور میدان کے آخر میں سرسبز ڈھلوان اور ڈھلوان کے بعد برف پوش چوٹیاں۔ اس خوبصورت منظر اور میدان کی وسعت شہری سیاح منہ کھولے حیرت سے دیکھتا ہے یہ منظر اس کے لیے قدرت کا ایک تحفہ ہے۔ یہ ایک بہترین کیمپ سائٹ بھی ہے۔ یہاں سے سفر اترائی کا ہے، اترائی کے دوران ہی دور کچھ نیلاہٹ نظر آتی ہے یہ دیوسائی کی واحد جھیل شیوس رہے، 12677 فٹ بلند یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں ایک ہے۔ اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سطح ہمیشہ یکساں رہتی ہے اس مین پانی نا کہیں سے داخل ہوتا ہے نا خارج اس لیے مقامی لوگ اسے اندھی جھیل کہتے ہیں۔ اس جھیل میں ٹراؤٹ اور سنو کارپ مچھلی بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ اس کا ساحل ایک کیمپ سائٹ ہے۔ اسکردو کے باسی چھٹی والے دن بڑی تعداد میں یہاں پکنک منانے آتے ہیں۔ جھیل کا پانی یخ بستہ اور اس قدرشفاف ہے کہ اس کے نیچے موجود رنگ برنگے پتھر اور ٹراؤٹ صاف نظر آتے ہیں اورخوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ جھیل کا پانی جب کناروں سے ٹکراتا ہے توجلترنگ کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز اور منظر سے سیاح مسحور ہوجاتا ہے اور اس کا دل اس منظر کو چھوڑ کر آگے جانے سے انکار کردیتا ہے مگر وہ سیاح ہی نہیں جو کسی ایک مقام پر ٹہر جائے۔ اسلام آباد سے گلگت جانے والی فلائٹ سے بھی یہ جھیل نظر آتی ہے۔ مسافروں اور پائلٹ کے مطابق بعض ذاویوں سے یہ جھیل اپنی شفافیت کی وجہ سے بالکل خالی نظر آتی ہے۔ شیوسر جھیل سے کچھ فاصلے پر جیپ کالا پانی نامی دریا کو عبور کرتی ہے۔ دریا کے تہ میں موجود کالے پتھروں کی وجہ سے یہ دریاکالا پانی کہلاتا ہے۔ یہاں جیپ میں موجود لوگ دعا کرتے ہیں کہ دریا عبور کرتے ہوئے جیپ بند نہ ہو جائے ورنہ اس یخ بستہ پانی میں اتر کر جیپ کو دھکا لگانے کے تصور سے ہی خون رگوں میں منجمد ہونا شرو ع ہوجاتا ہے۔ عموماً کچھ جدوجہد کے بعد ڈرائیور کی مہارت اور اللہ کی مدد سے جیپ دریا سے نکل جاتی ہے۔ ہماری اگلی منزل بڑا پانی ہے جو دیوسائی کا سب سے بڑا دریا ہے۔ یہی اس کے نام کی وجہ بھی ہے۔ یہاں دیوسائی کا واحد پل بھی ہے۔ یہ پل لوہے کے تاروں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا ہے۔ ہر سال برف باری کے دوران یہ پل ٹوٹ جاتا ہے جسے دوبارہ بنایا جاتا ہے۔ پل عبور کرتے ہی ایک بورڈ نظر آتا ہے ہمالین وائیلڈلائف پراجیکٹ۔۔ دیوسائی نیشنل پارک۔۔ ممنوعہ علاقہ۔۔ یہاں بھورے ریچھوں پر تحقیق ہو رہی ہے ساتھ ہی ان کے کیمپ لگے ہیں، یہاں وائلڈ لائف کے نمائندوں سے ہماری ملاقات ہوئی اور دیوسائی میں موجود جنگلی حیاتیات خصوصاً بھورے ریچھوں کے متعلق کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ ان لوگوں نے سیاحوں کے لیے یہاں ایک ٹوائلٹ بھی بنایا ہے ساتھ ہی ایک چشمے کا ٹھنڈا پانی بہتا ہے، انھی سہولیات کی وجہ سے سب سے زیادہ کیمپنگ اسی مقام پر ہوتی ہے۔ دیوسائی میں کیمپنگ کے حوالے سے یہ بات یاد رکھیں کہ یہاں کچھ میسر نہیں ہے مکمل تیاری کے ساتھ جائیں۔ ٹن پیک کھانے اور کچا راشن لے کر جائیں، کھانا پکانے کے لیے لکڑی یا چولھا مع ایندھن اور رہنے کے لیے مضبوط واٹر پروف خیمے لے کر جائیں۔ رات کو روشنی کے لیے لالٹین اور ٹارچ مع اضافی بیٹریاں رکھیں۔ یہاں کافی مقدار میں اور کافی صحت مند مچھر بھی پائے جاتے ہیں اس لیے مچھر کو بھگا نے والی کوئی دوا استعمال کریں۔ یہاں کا موسم گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، ابھی سخت ترین دھوپ چہرے جھلسا رہی ہوگی تو اگلے لمحے بارش یا پھر برف باری بھی ہو سکتی ہے۔ جی ہاں یہاں گرمیوں میں بھی برف باری ہوتی ہے۔ رات بہت سرد ہوتی ہے اس لیے گرم لباس لے کر جائیں۔ رات کو بادل کیمپ میں آجاتے ہیں اور اسے گیلا کرتے ہیں۔ رات کا منظر نہایت حسین ہوتا ہے کیونکہ آسما ن رات کو تاروں کے وجود میں گم ہوتا ہے۔ دن بھر یہاں قریبی گاؤں کے بکروال اپنی بکریاں اور یاک چراتے نظر آتے ہیں۔ صدیوں سے جہلم کے گجر ہر سال جب دیوسائی کے برف پگھلتے ہیں تو مظفرآباد کیل اور منی مرگ کے راستے یہاں اپنے مویشی لے کر آتے ہیں۔ یہاں اتنے رنگ کے اور اتنی تعداد میں پھول ہیں کہ آپ سارا دن ان کو دیکھنے میں گزار سکتے ہیں۔ اگر آپ کو مچھلی کے شکار کا شوق ہے اور آپ کے پاس ڈور کانٹے بھی ہیں تو ٹراؤٹ کے شکار کے یہاں کافی مواقع ہیں۔ اگر آپ ریچھوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمالین وائیلڈ لائف والوں کی خدمات حاصل کریں۔ غرض دو دن گذارنے کے لیے یہاں کافی مواد موجود ہے۔ یہاں سے آگے سفر جاری رکھیں تو محض آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد شتونگ کیمپ سائٹ آئے گی جو شتونگ نالے کہ ساتھ ہے۔ یہاں بھی جیپ دو دریاؤں سے بمشکل گذرتی ہے۔ یہان قیام و طعام کے لیے مقامی لوگوں نے کیمپ لگا رکھے ہیں، یہاں سے مزید صرف پندرہ منٹ کے بعد دیوسائی کا آخری کونا یعنی المالک مار پاس آتا ہے یہاں بھی سیاحوں کے قیام و طعام کے لیے کیمپ موجود ہے اور ساتھ ہی وائلڈ لائف چیک پوسٹ بھی ہے۔ اسی مقام سے ایک ذیلی ٹریک برجی لا ٹاپ تک جاتا ہے۔ برجی لا کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے قراقرم سلسلے کی چھ چوٹیاں K-2، براڈ پیک، گشیبرم 1، گشیبرم 2، گشیبرم4 اور مشہ برم نظر آتی ہیں۔ ایک مقام پر اتنی بلندچوٹیاں دنیا میں اور کہیں نہیں پائے جاتیں یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے۔ یہاں سے سفر اترائی کا شروع ہوتا ہے اور مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد جھیل صد پارہ سے گذرتے ہوئے اسکردو کا شہر آجاتا ہے۔ جہاں زندگی کی چہل پہل اور بازاروں کی رونق دیکھ کر دیوسائی کی بلندیوں سے آیا ہوا سیاح اپنے آپ کو اجنبی اجنبی سا محسوس کرتا ہے۔ اس کی نظریں بار بار صد پارہ جھیل سے پرے بلندیوں کی طرف اٹھتی ہیں اور وہ سوچتا ہے کہ کیا وہ واقعی وہیں تھا دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع میں بھورے ریچھوں کے درمیان،مسحور کردینے والی خوشبوؤں اور دل موہ لینے والے رنگ برنگے پھولوں کی جھرمٹ میں۔ کیا وہ واقعی وہاں تھا یا یہ سب محض ایک خواب تھا۔

3 - 0

Nazim ullah Baig
Posted 1 month ago

exploring second highest plateaus in the world Deosai Plain
PC Nazim Ullah Baig

5 - 0

Nazim ullah Baig
Posted 2 months ago

سوال یہ ہے یہ مون سون ہے کیا؟ اور اسے ساون کی جھڑی بھی کیوں کہا جاتا ہے؟

انگریزی زبان کے لفظ مون سون کی جَڑیں پُرتگیزی زبان کے لفظ مون کاؤ اور عربی و ہندی زبان کے لفظ موسم میں ہیں۔

عام طور پر اس کا مطلب زمین اور سمندر پر حدت کے ساتھ فضا میں ہونے والی تبدیلی لیا جاتا ہے۔

انگریزی زبان میں یہ لفظ سب سے پہلے برصغیر میں استعمال کیا گیا۔

اس اصطلاح کا مفہوم خلیج بنگال اور بحیرہ عرب اسے اٹھنے والی ہوا تھی جو خطے میں بارش کا باعث بنتی ہیں۔

مجموعی طور پر مون سون ہواؤں، بادلوں اور بارشوں کا ایک سلسلہ ہے اور یہ موسم گرما میں جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں بارشوں کا سبب بنتا ہے۔

اپریل اور مئی میں افریقہ کے مشرقی ساحلوں کے قریب خط استوا کے آس پاس بحر ہند کے اوپر گرمی کی وجہ سے بخارات بنتے ہیں۔

یہ بخارات بادلوں کی شکل میں مشرق کا رخ کرتے ہیں اور جون کے پہلے ہفتے میں یہ سری لنکا اور جنوبی بھارت پہنچتے ہیں اور پھر مشرق کی طرف نکل جاتے ہیں۔

ان کا کچھہ حصہ بھارت پر برستا ہوا کوہ ہمالیہ سے ٹکراتا ہے، جبکہ بادلوں کا کچھہ حصہ شمال مغرب کی طرف پاکستان کا رخ کرتا ہے۔

15 جولائی کے قریب مون سون کے بادل پاکستان پہنچتے ہیں۔ جسے ساون کی جھڑی کہتے ہیں، کیوں کہ 15 جولائی کو ساون کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔
دیگر زبانیں

مون سون ہواؤں، بادلوں اور بارشوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ موسم گرما میں جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں بارشوں کا سبب بنتا ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں افریقا کے مشرقی ساحلوں کے قریب خط استوا کے آس پاس بحر ہند کے اوپر گرمی کی وجہ سے بخارات بننے کا عمل ہوتا ہے یہ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اور مشرق کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ جون کے پہلے ہفتے میں یہ سری لنکا اور جنوبی بھارت پہنچتے ہیں اور پھر مشرق کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کا کچھہ حصہ بھارت کے اوپر برستا ہوا سلسلہ کوہ ہمالیہ سے آٹکراتا ہے۔ بادلوں کا کچھہ حصہ شمال مغرب کی طرف پاکستان کا رخ کرتا ہے اور 15 جولائی کو مون سون کے بادل لاہور پہنچتے ہیں۔ 15 جولائی کو پاکستان میں ساون کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔

مون سون نے برصغیر میں مغل بادشاہوں کو بھی بہت متاثر کیا۔ شہنشاہ بابر اور ہمایوں ساون میں جام پر جام لٹاتے تھے۔شہنشاہ اکبر کو مون سون کا موسم بے حد پسند تھا۔وہ مون سون دریائے جمنا میں کھڑی پرتعیش کشتیوں میں گزارتا۔شاہجہان ممتاز محل کے ساتھ بیٹھ کر بارش کا نظارہ کرتا تھا۔
انڈیا میں مون سون کی بارشیں مغل بادشاہ بابر کے لئے انتہائی پر مسرت اور لطف اندوز ہونے کاباعث ہوتی تھیں۔ بابر ہندوستان کی گرمی اور گرم مٹی سے اٹی ہواؤ ں سے ہمیشہ پریشان رہتا تھا۔یہی حال اس کے بیٹے ہمایوں کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے محلات میں انتہائی پرتعیش حمام تعمیر کروائے تھے جہاں یہ ہندوستان کی شدید گرمی اور حبس سے نجات پانے کے لئے کافی وقت گزارتے تھے۔ایسے میں جب خلیج بنگال سے آنے والے پانی سے بوجھل سیاہ بادل اپنی نم ہواؤ ں سے ہر سو مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلا دیتے اور پھر بارش کی تیز دھاریں ہر طرف جل تھل کردیتیں تو یہ وقت مغلوں کے لئے سکون کا پیغام لاتا۔بابر کا تعلق کیونکہ افغانستان کی ٹھنڈی وادی سے تھااس لئے اس کے لئے ہندوستان میں پہلی بارش ایک انتہائی خوشگوار تجربہ تھا۔بارشوں کا پورا موسم بابر اکثر آرام باغ میں گزارتا تھا۔اس کا چہارباغ مون سون کے موسم میں ایسا سرسبز و شاداب ہو جاتا تھا کہ گویا کسی جادوگر نے اس پر کوئی طلسم پھونک دیا ہو۔ بھانت بھانت کے پودے اور جھاڑیاں دنوں میں پورے باغ کو ہریالی سے بھر دیتے تھے۔ یہ بابر کے لئے دریائے جمنا میں تیراکی اور پھر چہار باغ میں آرام کا موسم ہوتا تھا۔ وہ اس موسم کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ہمایوں بھی برسات کے موسم سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہوتا تھا کیونکہ اس کا بچپن اور جوانی بھی افغانستان میں گزری تھی لیکن اس موسم میں آنے والا شدید سیلاب اس کے لئے بڑا پریشان کن ہوتا تھا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے سلطنت کے انتظامی امور سنبھالنے میں بڑی دقت ہوتی تھی۔ یہ وقت ہمایوں کے لئے بڑا تشویش کن ہوتا تھاکیونکہ ابھی مغل سلطنت نوزائیدہ تھی اور ہمایوں ابھی تک اپنے باپ کی قائم کی گئی مغل سلطنت پر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لئے تگ و دو کررہا تھا۔ مغلوں کی پکنک اس وقت تک جاری رہتی جب تک دریائے جمنا بارشوں کے پانی سے بپھر کر سیلاب کی صورت نہ اختیار کرلیتا تھا۔تقریباً سارے مغل شہزادے مون سون کے دوران تیراکی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ بہادر شاہ ظفر بھی اس موسم میں تیراکی کرتے تھے۔بہادر شاہ ظفر اپنا ساون مہراؤلی میں گزارتے تھے جہاں ہر درخت کے ساتھ ایک جھولا ہوتا اور شہزادیاں ملکائیں اور باندیاں جھولوں کی لمبی لمبی پینگیں بھرتیں۔آم، نیم اور جامن کے گھنے پیڑوں میں لٹکے جھولوں اور کالی سیاہ گھٹا ئوں میں کوئل کی کوکو کے ساتھ لڑکیاں بالیاں ملہار گاتیں تو ایک سماں بندھ جاتا۔ میٹھے نمکین پکوان تلے جاتے اور بادشاہ سلامت یہ سب دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔

8 - 0

Nazim ullah Baig
Posted 2 months ago

how to apply pakistani visa

1 - 0

Nazim ullah Baig
Posted 2 months ago

Astore is amazing

13 - 1

Nazim ullah Baig
Posted 3 months ago

Nanga parbat Base camp trek in June 19

11 - 0

Nazim ullah Baig
Posted 4 months ago

experiencing the echo of Information technology in the ultimate peace of the nature,,,,,,,,,,

5 - 0